سماج کی تین بیماریاں
مریض سماج کی فکر
سماج کے سدھار کے لیے آج جگہ جگہ پروگرام ترتیب دئیے جارہے ہیں ، کارنرمیٹنگوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے، اصلاح معاشرہ کی سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے، ان کے پاس اس کا پورا لائحۂ عمل موجود ہے، ان کی اس سلسلہ کی تمام کوششیں ضروری ہیں اورقابل تعریف ہیں ، لیکن ان کوششوں کے جومثبت نتائج سامنے آنے چاہئیں ، بڑی حد تک وہ نتائج سامنے نہیں آتے، شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اندرسے جوروگ سماج کو لگ گئے ہیں ان کے علاج کی فکر کم سے کم کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثروبیشتر یہ کوششیں نقش برآب ثابت ہوتی ہیں ۔
معاشرہ افراد سے وجود میں آتا ہے، اس کی اصلاح افراد کے صلاح سے وابستہ ہے، لوگوں میں اگرکوئی متعدی مرض پیدا ہوجائے تووہ پورے معاشرہ کو متعفن کردیتا ہے، بعض مرتبہ ایک فرد کی بیماری پورے معاشرہ کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے، اس لیے اصلاح معاشرہ کی سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ معاشرہ کا ایک ایک فرداپنا جائزہ لے اورکم سے کم وہ بیماریاں جن کے اثرات دوسرں پر بھی پڑتے ہیں ان کودورکرنے کی کوشش کی جائے، ان میں تین بنیادی امراض ہیں جن سے پورا معاشرہ کرپٹ ہورہا ہے، سورۃ الحجرات کی بارہویں آیت میں بطورخاص ان تینوں کوبیان کیا گیاہے۔