تذکرہ درست نہیں ہے اور وہ عیب مخاطب کے اندر موجود نہ ہو تب تو اس گناہ کی شدت بہت بڑھ جاتی ہے، بعض روایات میں آتا ہے کہ اگر کوئی کسی عیب کو کسی کی طرف منسوب کرتا ہے تو اس وقت تک اس کو موت نہیں آئے گی جب تک وہ بھی اس عیب میں مبتلا نہ کردیا جائے(۱)، لمز کی ممانعت کے لیے جو تعبیر استعمال ہوئی ہے وہ بھی نہایت بلیغ ہے، ارشاد ہوتا:
{وَلاَ تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ}
’’اور ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ ۔‘‘
أنفس، نفس کی جمع ہے، لغوی معنی یہ ہیں کہ اپنی جانوں کو برا مت کہو، اس کے نتیجہ میں تم کو بھی برا کہا جائے گا دوسرااشارہ اس میں یہ ہے کہ تم جن ایمان والے بھائیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہو، وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہارا ہی حصہ ہیں ، ان کو الگ مت سمجھو، ان کو برا بھلا کہنا خود اپنی ذات کو برا کہناہے۔
برے ناموں سے پکارنا
تیسری جس چیز سے روکا جارہا ہے وہ برے ناموں سے پکارنا ہے، فرمایا جارہا ہے:
{وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالأَلْقَابِ} (۲)
’’اور نہ برے ناموں سے پکارو۔‘‘
جن القاب کو معیوب سمجھا جاتا ہو، ان سے احتیاط کرنی چاہیے، القاب کبھی خلقی نقص کی بناء پر پڑ جاتے ہیں ، جیسے اندھا، کانا، بہرا، نکٹا وغیرہ، ظاہر ہے جس کو ان ناموں سے پکارا جائے گا اس کو کس قدر تکلیف ہوگی، کبھی بری عادتوں کی وجہ سے نام
------------------------------
(۱) ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب من عیّر أخاہ بذنب، بیہقی ،شعب الایمان/۶۴۲۲
(۲) سورۂ حجرات/۱۴