خیرا أو لیصمت‘‘(۱) (جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ بھلی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔)
ہزار خرابیوں کی جڑ یہ زبان ہے، آدمی بعض مرتبہ کچھ نہیں تو اپنی تعریف ہی شروع کردیتا ہے، اور اس کے اندر تعلّی کا احساس شامل ہوجاتا ہے، جو اس کو نقصان پہنچاتا ہے، حاصل یہ ہے کہ تحفظ کے ساتھ زبان کا استعمال ہوگا تو بچنے کی امید ہے، ورنہ خطرہ ہی خطرہ ہے، آیت شریفہ میں اسی لیے بڑی تاکید کے ساتھ یہ احکامات دیئے گئے ہیں تاکہ زبان سے کوئی تکلیف کسی کو نہ پہنچے۔
بدترین بات
فسق اللہ کے حکم سے سرتابی کو کہتے ہیں ، زبان کے غلط استعمال سے ممانعت کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
{بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الإِیْمَانِ} (۲)
’’ایمان کے بعد فسق بدترین نام ہے۔‘‘
اس میں صاف صاف یہ اشارہ ہے کہ اوپر جن منہیات کا ذکر تھا وہ سب فسق میں شامل ہیں ، ایک حدیث میں آتا ہے: ’’سباب المؤمن فسوق‘‘(۳) (مومن کو گالی دینا فسق کی بات ہے)، اسم اپنے مسمّٰی پر دلالت کرتاہے، جہاں کسی چیز کا نام لیا جاتا ہے، وہاں اس کا چرچا ہوتا ہے، اس میں بظاہر یہ اشارہ ہے کہ ایمان کے ٹھپہ لگ جانے کے بعد لوگوں میں اس کا چرچا ہوجانے کے بعد پھر فسق کا چرچا ہو، یہ ایمان کے تقاضے کے خلاف ہے، اور اس سے اسلام پر زد پڑتی ہے، عام لوگ فرق نہیں
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان/۶۴۷۵ و باب اکرام الضیف/۶۱۳۵، صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الحثّ علی اکرام الضیف/۱۸۲ (۲) سورۂ حجرات/۱۴
(۳) مسند احمد/۴۳۶۳، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۶/۲۵۶