نیکیوں کی بنیاد
حاصل یہ ہے کہ تقویٰ تمام نیکیوں کی بنیاد اور اصل الاصول ہے، بقول علامہ سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کہ ’’اگر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام تعلیمات کا خلاصہ ہم صرف ایک لفظ میں کرنا چاہیں تو ہم اس کو ’’تقویٰ‘‘ سے ادا کرسکتے ہیں ۔‘‘(۱)
تقویٰ اصلاً تو دل کی ایجابی کیفیت کا نام ہے لیکن اس کے نتائج ایجابی بھی ہیں اور سلبی بھی، ہر خیر کی طر ف بڑھنا اور ہر شر سے بچنا، دونوں باتیں تقویٰ کے لوازمات میں سے ہیں ، کوئی شخص نماز، روزہ کرتا رہے، لیکن کسی کا دل دکھاتا ہو، کسی کو تکلیف پہنچاتا ہو، حق تلفی کرتا ہو، بدنگاہی میں مبتلا ہوجاتا ہو، معاملات میں پختگی نہ رکھتا ہو، جھوٹ بولتا ہو، وعدہ پورا نہ کرتاہو، اور دوسرے گناہوں میں بھی مبتلا ہوجاتا ہو، تو وہ ہرگز متقی کہلانے کا مستحق نہیں ہے، احتیاط کی زندگی گزارنا، اللہ کا ہمہ وقت دھیان رہنا، ہر عمل میں اس کا لحاظ رکھنا کہ وہ کہیں اللہ کو ناراض کرنے والا عمل نہ ہو، یہ تقویٰ ہے، اسی لیے ایک صحابیؓ نے تقویٰ کی تعریف کرتے ہوئے ایک بہترین مثال دی، انھوں نے دوسرے صحابیؓ کو جنھوں نے تقویٰ کے بارے میں سوال کیا تھا، خطاب کرکے کہا کہ کیا تمہارا گزر کبھی خاردار راستہ سے ہوا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں ۔ کہا کس طرح گزرے؟ انھوں نے جواب دیا کہ کپڑے سمیٹ کر گزرا کہ کہیں دامن کانٹوں میں الجھ نہ جائے۔ فرمایا: اسی کا نام تقویٰ ہے۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے راستہ کو خاردار کانٹوں سے گھیر دیا ہے(۲)، جو اس میں الجھا، وہ گیا، یہ کانٹے ہیں بے جا خواہشات کے، نفسانیت کے، خودغرضی کے، غرور و گھمنڈ کے، من چاہی کے، ان سے دامن بچا کر زندگی گذارنا تقویٰ ہے، اسی لیے اس کو ’’ملاک الأمر‘‘ یعنی دین کی اصل قرار دیا گیا ہے۔
------------------------------
(۱) سیرۃالنبی۵/۳۱۱ (۲) مسند احمد /۷۷۴۱