کرپاتے، جب وہ مسلمان میں کسی صفت کو دیکھتے ہیں تو وہ اس کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ، کسی مسلمان کے فعل سے اسلام پر زد پڑے اور اس کا یہ عمل دعوت اسلام کے لیے روڑا بنے، اس سے بڑھ کر برائی کیا ہوسکتی ہے؟
اور پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دولت ایمان سے سرفراز فرمایا، اخلاق کی بلندی عطا فرمائی، ایسی پاکیزہ تعلیمات دیں جو نہ کسی مذہب میں مل سکتی ہیں اور نہ کسی تہذیب میں ، اس کے بعد پھر آدمی سرتابی کرے، ان تعلیمات کی ناقدری کرے، تو یہ بدترین بات ہے، ترقی کے بعد تنزلی، روشنی کے بعد تاریکی، علم کے بعد جہالت، ایمان کے بعد فسق وفجور، اس کو سوائے بے توفیقی کے اور کس چیز سے تعبیر کیا جائے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے پناہ مانگی، ان میں یہ بھی ہے: ’’أعوذ بک من الحور بعد الکور‘‘(۱) (اے اللہ تاج سعادت دے کر پھر اس سے محروم نہ فرمانا) ’’کور‘‘عمامہ کے پیچ کو کہتے ہیں ، اور ’’حور‘‘ اس کے کھل جانے کو کہتے ہیں ۔
توبہ کی قیمت
بڑے سے بڑے سرکش، کافر اور گنہگار کے لیے بھی اللہ نے دروازہ بند نہیں کیا، جب تک جان میں جان ہے، دروازہ کھلا ہوا ہے، اگر ان ہزار خرابیوں کے بعد بھی بندہ مالک کی طرف لوٹ جائے، توبہ کرلے ، تواللہ تعالیٰ سب کو معاف کردیتے ہیں : {إِنَّہٗ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً إِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ}(۲) (وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔) ہاں اگر کوئی عناد پر کمربستہ ہے اور رجوع نہ کرے تو اس کے بارے میں ارشاد ہے:
------------------------------
(۱) ترمذی، باب مایقول إذا خرج مسافرا/۳۷۷۱، نسائی، باب الاستعاذۃ من الحور/۵۵۱۵
(۲) سورۂ زمر/۵۳