اس کے لیے ’’عنت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس میں مشقت شدیدہ کا بھی مفہوم ہے، اور اختلال کا بھی، یعنی سخت دشواری کے نتیجہ میں آدمی چکرا کر رہ جائے گا، اس کو پھر کوئی سرا نہ مل سکے گا، امت کے ہر ہر فرد کی ذمہ داری ہے، خواہ کسی طبقہ سے اس کا تعلق ہو، شریعت مطہرہ سے اس کا تعلق کبھی ٹوٹنے نہ پائے، اس لیے کہ جب ایک مرتبہ آدمی تاریکی میں پڑ جاتا ہے تو پھر اس کو راستہ ملنا سخت دشوار ہوجاتا ہے: ’’ومن لم یجعل اﷲ لہ نورا فما لہ من نور‘‘(اللہ جس کو روشنی نہ دے اس کو روشنی کہاں سے ملے گی؟!)
صحابہؓ پر اللہ کا انعام
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت کے لیے منتخب فرمایا تھا، پوری جماعت کی تربیت خود آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے محبت رسولؐ سے معمور کردیا تھا، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چشم و ابرو کے منتظر رہتے تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کا جو نمونہ انھوں نے چھوڑا وہ پوری امت کے لیے بڑا سرمایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص انعام یہ تھا کہ وہ مزاج نبوت میں ڈھل گئے تھے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چاہت ان کی چاہت تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے آگے دنیا کی بڑی سے بڑی دولت و عزت قربان کردینا ان کے لیے بڑی بات نہ تھی، اور یہ صرف ان کا حال نہ تھا بلکہ ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی تھی، ایمان سے ان کے دل لبریز تھے، خیر ان کے مزاج میں داخل ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ ان پر اپنے اس انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
{وَلٰکِنَّ اﷲ َ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ