ایک طرف اسلام قوت و شوکت بڑھانے کی تعلیم دیتا ہے وہیں اس طاقت کے استعمال کا طریقہ بھی بتاتا ہے، عدل وانصاف سکھاتا ہے، حدود و قیود متعین کرتا ہے، جہاں وہ علم و ہنر میں انسان کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے، وہیں اس کی تعلیم یہی ہے کہ وہ علم اللہ کے نام کے ساتھ جڑا رہے تاکہ وہ انسانیت کے لیے رحمت وبرکت بن سکے، یہ وہ پیغمبرانہ تعلیم ہے جو اسلام نے پیش کی ہے، آج دنیا نے اس کو فراموش کردیا، واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں بھی سب سے اونچا نمونہ پیغمبروں کا ہے جن کا براہ راست رابطہ خالق کائنات سے ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان برگزیدہ بندوں کا انتخاب اسی لیے فرمایاکہ وہ عالم انسانیت کی رہنمائی کریں اوراس کوصحیح فکروعمل سے آراستہ کریں ۔
پیغمبروں کی ضرورت
انسان اس سے خوب واقف ہے کہ وہ فرشتوں کی نقل نہیں اتارسکتا،دونوں کی فطرت الگ ہے، انسان غلطی کرسکتا ہے فرشتے غلطی کرہی نہیں سکتے،اس لیے وہ انسان ہی کی نقل اتارتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی قدرت میں ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو انسانو ں میں سے انتخاب کیا، یہ ممکن تھا کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اسی لیے اتاردیا جاتا، لیکن اس میں ایک انسان کے لیے مطاع ومقتدابننے کی صلاحیت نہیں تھی، انسان یہ عذرپیش کرسکتا تھا کہ یہ مخلوق ہی الگ ہے، اس کی ساخت پرداخت کا انسان سے کوئی جوڑنہیں ، ایک انسان فرشتے کی نقل کیسے اتارسکتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں پیغمبروں کوپیدا کیا لیکن یہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ اتباع اسی کی کرتاہے جس کو بلند سمجھتا ہے اوراس کی عظمت اس کے دل کی گہرائیوں میں ہوتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کواونچا اٹھایا، ان کو معصوم بنایا، اوران کو ان صفات و اخلاق سے آراستہ کیا جوانسانیت کے لیے معراج کی حیثیت رکھتی ہیں ، پھر ان کو معجزات دے کر وہ بلندی عطا فرمادی جوصرف انہیں کا خاصہ ہے۔