شناسی اور حق رسی ہے جس کی روشنی انسان کے ظاہر وباطن کو یکساں روشن کردیتی ہے، یہ سچائی جس کو مل جاتی ہے، اس کے دل کے داغ دھبے مٹ جاتے ہیں ، اور وہ تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے، قرآن مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے اہل تقویٰ کا بیان ہے: {وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلٓئِکِۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتیٰ الْمَالَ عَلیٰ حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبیٰ وَالْیَتَامیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَآتیٰ الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَدْھِمْ إِذَا عَاھَدُوْا وَالصَّابِرِیْنَ فِی الْبَأْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَأْسِ، أُولٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَأُوْلٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔}(۱) (لیکن نیکی یہ ہے جو اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، اور کتاب پر، اور نبیوں پر ایمان لایا، اور چاہت کے باوجود رشتہ داروں پر، یتیموں پر اورمسکینوں پر، مسافروں پر اور سوال کرنے والوں پر اور غلام آزاد کرنے میں مال خرچ کیا، اور نماز قائم کی، اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی، اورجو وعدہ کرکے اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں ، اور سختی اور تکلیف اور لڑائی میں صبر کرنے والے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ٹھہرے اور تقویٰ والے ہیں )۔
اس آیت میں بھی صفات قبولیت کے بیان کے بعد پہلے ’’أُولٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا‘‘ (یہی لوگ سچے ٹھہرے) کہہ کر یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ صدق، تقویٰ کی سیڑھی ہے۔
شعائر اللہ کی عظمت
بہت سے ذہنوں میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ تقویٰ ایک سلبی صفت ہے، اس کے اصل مفہوم میں بچنا اور پرہیز کرنا داخل ہے، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کا اصل پہلو ایجابی ہے، ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بنا پر ہر کام میں خدا کے حکم
------------------------------
(۱) سورۂ بقرہ/۱۷۷