مسجدوں اور مدرسوں کے نام برادریوں کے نام پر رکھے جانے لگے ہیں ، یقینا یہ اسی نخوت جاہلیت کا ایک بیج ہے، جو دماغوں میں پڑگیا ہے، اس کو کھرچ کر پھینک دینے کی ضرورت ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا: ’’من تعزی بعزاء الجاھیلۃ فأعضوہ بھن أبیہ و لا تکنوا‘‘(۱) (جوجاہلیت کا نعرہ لگائے، اس کو اس کے باپ کی کھلی گالی دو اور اشارہ کنایہ سے کام نہ لو)۔
یہ الفاظ اس زبان مبارک سے ادا ہوئے ہیں جو سراپا رحمت تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اعمال جاہلیت کو مٹانے کے لیے تشریف لائے تھے، جاہلی نخوت کو کیسے برداشت فرماتے، ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ’’لیس منا من دعا إلی عصبیۃ۔‘‘(۲) (جو عصبیت کی دعوت دے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں )۔
نشان امتیاز
اسلام نے تفاخر وتفاضل کے سارے حدود ختم کردیئے، صرف ایک حد باقی رکھی جو وجہ امتیاز ہے، اور نشان فخر ہے، اور وہ ہے تقویٰ اور پرہیزگاری کی حد۔
آیت شریفہ میں ایک بات اور خاص طور پر توجہ کرنے کی ہے، سورۂ شریفہ کی ابتداء سے باربار اہل ایمان کو خطاب ہورہا تھا، لیکن یہاں عمومی خطاب ہے، تمام انسانوں کے لیے، اس میں عالمی انسانی برادری کی طرف اشارہ ہے، تمام انسان خواہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں ، کالے ہوں ، گورے ہوں ، امیر ہوں ، غریب ہوں ، محلات کے رہنے والے ہوں یا کاخ فقیری ان کا نشان امتیاز ہو، سب ایک باپ کی اولاد ہیں ، اس حیثیت سے کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ، ارشاد نبویؐ ہے: ’’فلیس لعربي علی عجمي فضل ولا لعجمي علی عربي فضل ولا لأسود علی أبیض ولا لأبیض
------------------------------
(۱) شرح السنۃ،کتاب الاستئذان، باب التعزی بعزاء الجاہلیۃ، مسند احمد/۲۱۸۳۵ـ۲۱۸۳۷
(۲) ابوداؤد، کتاب الادب،باب فی العصبیۃ/۵۱۲۲