پڑ جاتے ہیں ، کسی نے چوری کی، اس کو چور کہا جانے لگا، وہ تائب ہوگیا، پرہیزگار بن گیا، تب بھی اس کو چور کہا جارہا ہے، کوئی بھی ایسا لقب یا نام جس سے مخاطب تکلیف محسوس کرے، اس سے بچنا چاہیے، حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔(۱) کسی بھی قول سے، فعل سے، طرز گفتگو سے تکلیف پہنچ سکتی ہو، اس سے بچنا ضروری ہے۔
بندوں کے حقوق
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حقوق دو طرح کے ہیں ؛ ایک حق اللہ کا ہے اور دوسرا حق بندوں کا ہے، اللہ تعالیٰ توبہ پسند فرماتے ہیں ، اپنے حق میں وہ معاف فرمادیں گے، لیکن بندوں کا حق اس وقت تک معاف ہونا مشکل ہے جب تک معاف نہ کرالیا جائے، اگر گناہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو اس گناہ کی توبہ قبول ہی اس وقت ہوگی جب حق ادا ہوجائے یا اس کی معافی کرائی جائے، یہ توبہ کے شرائط میں سے ہے۔
ہمارے معاشرہ کا یہ سب سے بڑا مرض ہے جو ہم مسلمانوں کو گھن کی طرح لگ گیا ہے، بالائے ستم یہ کہ اس کو مرض نہیں سمجھا جاتا، اچھے اچھے دیندار لوگ اس میں مبتلاء ہوجاتے ہیں ، اس سے مسلمانوں کی بہت غلط تصویر انسانی سماج میں جارہی ہے، اخلاقیات اور معاملات میں کھوکھلاپن بڑھتا چلا جارہا ہے، مسلمانوں کے لیے یہ بڑا لمحۂ فکریہ ہے، اس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ مکمل اسلام کی تصویر بن سکے۔
جب آیت شریفہ میں استہزاء کرنے، برابھلا کہنے اور برے ناموں سے پکارنے کی ممانعت ہے تو حق مارنا کس درجہ گناہ کی بات ہوگی، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے پوچھا: جانتے ہو مفلس کون ہے؟ انھوں نے کہا جس
------------------------------
(۱) بیہقی، شعب الایمان۳۹/۶۳۹۳