خیال رکھنا ضروری ہے، جس کو نعمت مل چکی ہو اوراس کو نعمت کی قیمت کا کچھ اندازہ بھی ہووہ اس نعمت کے تحفظ کے لیے کیاکچھ نہیں کرسکتا۔
اس نعمت ایمان کے تحفظ کے لیے عمومیت کے ساتھ پہلی آیت میں جوکچھ کہاگیا تھا اب اس دوسری آیت میں اس کی ایک ایسی مثال دی جارہی ہے جس سے ہرخاص وعام بات کو سمجھ لے، نبی کے سامنے جب آواز بلند کرنے سے روکا جارہا ہے، جوعربوں کے اس ماحول میں کوئی بہت زیادہ خلاف ادب بات نہیں تھی، بے تکلفی ان کے مزاج میں داخل تھی لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان وعظمت کے سامنے اس کوبھی بے ادبی قراردیاجارہاہے، توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی فیصلہ اورحکم کے آگے بڑھ جانا اوراس کی اتباع نہ کرنا، اس کی اہمیت کودل وجان سے تسلیم نہ کرنا کس درجہ خلاف ادب ہوگا،اسی لیے قرآن مجید کی دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی گئی: {فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیٓ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً}(۱) ’’آپ کے رب کی قسم وہ ہرگز اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے تمام نزاعات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ بنالیں پھر وہ آپ کے فیصلہ پراپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اورپوری طرح سرتسلیم خم کردیں ۔‘‘
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوچکی لیکن آپ کی تعلیمات وارشادات موجود ہیں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ شریفہ سامنے ہے، ہرہرامتی پرفرض ہے کہ اس کے دل میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہرہرچیز کی عظمت ہو، مسجد نبوی کا احترام اوروہاں اپنی آواز کوپست رکھنا ایمان اورتقویٰ کی بات ہے، آپ کی تعلیمات اورطریقہ ہرچیز پرمقدم ہو، بڑی سے بڑی خواہش کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہ ہو، جب حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم سامنے آئے توہرچیز ہیچ ہو، یہ عظمت
------------------------------
(۱) سورۂ نساء/۶۵