لاؤ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر اور بھلی یا بری تقدیر پر)۔(۱)
ان دونوں ارشادات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے اور ایمان کا تعلق باطن سے اور دین ان دونوں کے مجموعہ کا نام ہے، نہ ایمان کے بغیر اسلام کا تصور ممکن ہے، اور نہ ایمان اسلام کے بغیر مکمل ہوسکتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں ، عقائد کی درستگی دین کی بنیاد پر ہے اور اعمال کے بغیر اس بنیاد پر تعمیر نہیں ہوسکتی، اسلام کی عمارت ان دونوں سے مل کر مکمل ہوتی ہے، اگر عقائد درست ہیں لیکن اعمال میں کوتاہی ہے تو یہ فسق ہے اور اگر عقائد ایمان کے مطابق نہیں ہیں اور اعمال اسلامی ہیں تو یہ نفاق ہے۔
اسلام لانے والوں کی قسمیں
زمانہ نبوت میں جب اسلام کا بول بالا ہوا، اور {یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اﷲِ أَفْوَاجاً}(۲) کا سماں بندھ گیا تو کافروں کی ایک بڑی تعداد اسلام میں صرف اس لیے داخل ہوگئی تاکہ اس کو ہر طرح منافع حاصل ہوسکیں ، اور اسلامی معاشرہ میں ان کو قدر و منزلت حاصل ہو، ان میں بڑی تعداد بعد میں مخلص مسلمان ہوگئی اور ایک تعداد ان لوگوں کی باقی رہی جو صرف ظاہری طور پر مسلمان تھے، اور ایک تعداد ان دشمنوں کی بھی تھی جنھوں نے اسلام کا لبادہ صرف اس لیے اوڑھا تھا تاکہ وہ مسلمان بن کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرسکیں ، اور اس کے لیے ان کو اندر گھسنے کے مواقع آسانی سے حاصل ہوجائیں ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ فرماتے تھے، اگرچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ان کے بارے میں بخوبی علم ہوچکا تھا لیکن
------------------------------
(۱) صحیح مسلم، باب معرفۃ الایمان والاسلام
(۲) سورۂ نصر/۲