اس نے مکمل طریقہ پر کر لیا، اور اس کا حق ادا کردیا، اس میں دسیوں خامیاں ہوسکتی ہیں ، جن کی طرف اس کی نگاہ نہیں پہنچ رہی ہے، دوسری بات یہ کہ وہ عمل کی نسبت اپنی ذات کی طرف نہ کرے، حقیقت تو یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی انسان اللہ کے حکم اور اس کی توفیق کے بغیر نہیں کرسکتا، ایمان تو بہت بڑی چیز ہے، کوئی اس دھوکہ میں نہ رہے کہ اس نے اس دولت کو خود حاصل کرلیا، ہر ایمان والے کو سراپا سپاس ہوناچاہیے۔
غلط فہمی کا ازالہ
بنواسد کا وفد آیا تو وہ ان دونوں غلط فہمیوں کا شکار تھا ایک تو ان کو یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ وہ ایمان لائے ہیں اور بغیر کسی دوسرے کی کوشش کے ایمان لائے ہیں ، اس پر ان کو ناز تھا، اور وہ اس کو اسلام اور رسول اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایک احسان تصور کررہے ہیں ، دوسرا خیال ان کو یہ تھا کہ دولت ایمان پوری طرح حاصل کرچکے ہیں ، جبکہ وہ اس وقت صورت اسلام سے واقف تھے، حقیقت ایمان سے ان کو واقفیت نہیں ہوئی تھی، اسی لیے پہلے ہی مرحلہ میں ان سے کہہ دیا گیا کہ:
{قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا}
’’آپ کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ۔‘‘
جب یہ بات ان سے کہی گئی تو شاید انھوں نے اور صراحت اور مزید قوت سے کہا کہ ہم مسلمان ہی ہیں ، اور ایمان ہم پوری طرح قبول کرچکے ہیں ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں :
{قُلْ أَتُعَلِّمُوْنَ اﷲ َ بِدِیْنِکُمْ وَاﷲ ُ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَاﷲ ُ بِکُلِّ شَیْیٍٔ عَلِیْمٌ۔}(۱)
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۸