کے ان فیصلوں میں جو قرآن و سنت سے مأخوذ ہوں ان کی پیروی بھی لازم ہے، درحقیقت یہ ان کی پیروی نہیں بلکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔
اطاعت مطلقہ
جس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حیات طیبہ میں مطاع تھے، اسی طرح آج بھی مطاع ہیں ، اور آپ کی اطاعت کا مظہر آپ کی شریعت کااتباع ہے اور جس طرح آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی رائے کو کسی کی خواہش و ضرورت یا مصلحت کی خاطر تبدیل کردینے میں سخت حیرانی کا اندیشہ ہے، قرآن مجید میں صاف کہہ دیا گیا ہے : {لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ}’’اگر وہ (یعنی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم) بہت سے امور میں تمہاری بات مانیں تو تم چکر میں پڑجاؤ۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات میں چونکہ اس کا احتمال تھا کہ صحابہ کی رائے اختیار کی جاتی اور مشاورت ہوتی، اس لیے ’’فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ‘‘ فرمایا گیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس کا کوئی احتمال باقی نہیں رہا، اس لیے کسی بھی منصوص حکم شرعی میں ایسی گفتگو کی بھی گنجائش نہیں ، جس طرح کتاب و سنت میں وہ حکم منقول ہے اسی طرح اس کو باقی رکھنا اور عمل کرنا اور کرانا علمائے امت کی ذمہ داری ہے۔
موجودہ دور کا یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ بہت سے نام نہاد علماء یا وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو کتاب و سنت سے ناواقف ہے، بعض مرتبہ منصوص احکامات شرعیہ کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اور اگر وہ رائے تسلیم کرلی جائے تو پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیثیت مطاع کی نہیں رہ جاتی، بلکہ اس میں اپنی رائے کو ان کی رائے پر غالب کرنا ہے، اور اس کے نتیجہ میں امت کے لیے حیرانی کے سوا کچھ نہیں ، آج ایک رائے ہے،کل دوسری رائے سامنے آئے گی، اور شریعت کھلواڑ بن کر رہ جائے گی، اور اس کا مقصد فوت ہوجائے گا، قرآن مجید میں