بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمہ
از حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ
ناظم ندوۃالعلماء وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
الحمد ﷲ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم خاتم النبیین محمد بن عبد اﷲ الأمین وعلی أصحابہ الغرّ المیامین وبعد فقد قال اﷲ تعالیٰ فی کتابہ المبین {وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْکُمْ کِتَاباً فِیْہِ ذِکْرُکُمْ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ} (انبیاء/۱۰) (ہم تمہارے پاس ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اس میں تمہاری نصیحت موجود ہے، کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے)۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ہم اپنے حال و چال کے لیے اس کے اس صحیفہ سماوی کو جو اس نے آخری آسمانی صحیفہ کے طور پر اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر اتارا اپنے پیش نظر رکھیں کہ اس میں ہمارے بھی حالات زندگی کے لیے رہبری فرمائی ہے، یہ رہبری اسی امت کے لیے جو نبی آخرالزماں کی امت کہلاتی ہے پوری طرح لائق توجہ و استفادہ ہے، اس امت کے علاوہ دیگر امتوں میں دین کو اپنے اندازہ سے طے کردہ عقیدہ و عبادت تک محدود سمجھا گیا ہے لیکن امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کے لیے دین صرف مذکورہ دو پہلوؤں تک محدود نہیں رہا بلکہ زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی مشتمل رکھا گیا ہے، اس میں آپس کے تعلقات اور ایک دوسرے پر ایک دوسرے کے حقوق، دوستی اور دشمنی