توحضرت عمرنے فرمایا کہ تم یہ بات یقینی طورپر کیسے کہہ رہے ہو، کیا تمہیں اس سے کسی لین دین کا سابقہ پڑا ہے یا تم نے اس کے ساتھ طویل عرصہ گذارا ہے؟(۱) بغیراس کے تم کسی کے بارے میں یقین کے ساتھ ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہو!
یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ دوباتیں الگ الگ ہیں ، اچھا گمان کرنا الگ بات ہے لیکن اس کی بنا پر معاملہ کرلینا الگ بات ہے، جب تک برائی کا علم یقینی طورپر نہ ہوجائے اس وقت تک اچھا گمان رکھنے کا حکم ہے، لیکن بغیرتحقیق کے معاملہ کرلینے میں نقصان کے خطرات ہیں ۔امام ابودائودؒ،حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حسن الظن من حسن العبـادۃ۔‘‘(۲) (اچھاگمان کرنا اچھی عبادت میں سے ہے)۔
بدگمانی کے نقصانات
اگرناحق بدگمانی کی ہے تویہ اس کے حق میں وبال ہے، اوراس کے بارے میں سخت سے سخت روایات وارد ہیں ، اس کے نقصانات دنیا میں بھی بہت ہیں ، بعض مرتبہ بدگمانی کی بنا پر انسان بہت کچھ خیرسے محروم رہتا ہے، عالم کوجاہل سمجھ رہا ہے تواس کے علم سے محروم ہوگا، کوئی ایسا شخص جواس کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اس کو صحیح راستہ بتاسکتا ہے اس کو وہ گمراہ سمجھ رہا ہے اوربغیرتحقیق کے اس سے بدگمانی کا شکار ہے تو وہ اس کی رہنمائی سے محروم رہے گا، کوئی بھی اس کو نفع پہونچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کا خیرخواہ ہے لیکن وہ اس کے بارے میں بدگمان ہے تواس کے ہرطرح کے فائدے سے دوررہے گا۔
بدگمانی کی مذکورہ بالاشکلیں تووہ ہیں کہ جن کا نقصان انفرادی طورپرخود
------------------------------
(۱) سبل السلام، باب شہادۃ البدوی/۱۳۱۷، جامع الاحادیث للسیوطی/۳۰۲۵۴، کنزالعمال/۱۷۷۹۸ (۲) ابوداؤد،کتاب الادب، باب فی حسن الظن/۴۹۹۵، مسند احمد/۸۱۷۶