طرف ہے کہ کیسی ہی خبر ہو اگراس کے اندراہمیت ہے اور اس کوبتانے والافاسق ہے تواعتبار نہیں ، اسی طرح کیسا ہی شخص ہو معاشرہ میں اس کی بڑی عزت ہو، دولت مند ہو، صاحب منصب ہو اگراس کے اندرفسق ہے تواس کی بات معتبر نہیں ، ’’تبین‘‘ کی ضرورت ہے، یعنی تحقیق وجستجو کے بعدہی فیصلہ ہوسکتا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے لیے نہ قیل وقال کا اعتبار کیا جائے گااورنہ گمان کی بنا پر فیصلہ ہوگا، جب تک یقین یا ظن غالب نہ ہوجائے۔ہاں اگرکوئی معمولی بات بتائی جارہی ہے یا کوئی ایسی خبردے رہا ہے جس کا کسی پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں تواس میں تحقیق بھی لازم نہیں ہے۔
سنی سنائی باتوں پر یقین کا نقصان
آگے گمان یا سنی سنائی باتوں کی بنا پر جوفیصلے کردیئے جاتے ہیں اس کے نقصان کا بیان ہے۔
’’أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ‘‘ کوئی قوم تمہاری ناواقفیت یا طیش کا شکار نہ ہوجائے، جہالۃ کے دونوں مفہوم ہوسکتے ہیں ایک مفہوم اس کا ناواقفیت کا ہے یہ علم کی ضد ہے اور دوسرا مفہوم اس کا طیش میں آجانے کا ہے یہ حلم کی ضد ہے، ظاہرہے دونوں صورتوں میں جب حقیقت حال سامنے آتی ہے توسوائے ندامت کے اورکچھ ہاتھ نہیں آتا، اسی لیے فرمایا ’’فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ‘‘ اپنے کیے پرپھر تم کونادم ہونا پڑے۔
اصولی باتیں
اس آیت سے بعض اصولی مسائل سامنے آتے ہیں :
۱- غیرمعروف شخص کی نہ شہادت کا اعتبار ہے اور نہ روایت کا، قاضی اس