اعمال کی بنیاد پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ باقی رکھا تھا، پھر جب غزوۂ تبوک کے بعد ان منافقین کے سلسلہ میں بہت سخت آیات نازل ہوئیں تو ان منافقین کے بارے میں آپ کا رویہ تبدیل ہوگیا جن کا نفاق کھل گیا تھا، ان منافقین میں اکثریت یہودیوں کی تھی، جو محض بغض و عناد میں اپنے نفاق پر قائم تھے اور ان کا مقصد ہی مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا اور ان کو کمزور کرنا تھا، ورنہ اور منافقوں کا حال یہ تھا کہ چند کو چھوڑ کر تقریباً سب ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور اسلام کے نظام عادلانہ سے متأثر ہوکر سچے مسلمان بن چکے تھے۔
بدوؤں کا حال
غلبہ اسلام کے بعد اسلام لانے والوں کی ایک بڑی تعداد ان بدوؤں کی تھی جو مختلف علاقوں سے آکر مسلمان ہوتے تھے اور ان ہی میں بعض صرف فائدہ اٹھانے کے لیے مسلمان ہوئے تھے، ان ہی لوگوں میں بنواسد کا وفد بھی تھا، جو ۹ھ میں آیا تھا، وہ زمانہ ان کے یہاں قحط سالی کا تھا، وہ خود ہی مسلمان ہو کر اس لیے آگئے تھے تاکہ ان کو مصیبت میں کچھ راحت مل سکے، وہ آئے تو انھوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خطاب کرکے کہا کہ ہم خود اپنے مال و اولاد کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوگئے ہیں ، ہم ان دوسرے قبائل کی طرح نہیں ہیں ، جن سے آپ کو مقابلہ کرنا پڑا، باربار وہ یہ احسان جتاتے تھے، اور چاہتے تھے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ صدقات حاصل ہوجائیں ، سورۂ حجرات کی یہ آخری آیات اسی موقع پر نازل ہوئیں (۱):
{قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الإِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ}(۲)
------------------------------
(۱) مختصر تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۂ حجرات/۳۶۹، (مطبوعہ دارالقلم)
(۲) سورۂ حجرات/۱۷