کے ساتھ جوڑا اوراس کی روشنی میں ان اولین مسلمانوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ ان تعلیمات میں ڈھل گئے، اسلامی اخلاق وتعلیمات اوراجتماعی زندگی کے اصول ان کے مزاج میں داخل ہوگئے، اسی لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا ’’أنصر أخاک ظالماً أومظلوما‘‘ (اپنے بھائی کی مدد کروظالم ہو یا مظلوم)، توانہوں نے فوراً کہا ’’ھذا ننصرہ مظلوما‘‘ (ہم مظلوم کی مدد کرتے ہیں )، ’’فکیف ننصرہ ظالما‘‘ (ظالم کی مدد کیسے کریں ؟)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمنعہ من الظلم‘‘ (اس کو ظلم نہ کرنے دو، یہی اس کی مدد ہے)(۱)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے ان کے مزاج بدل گئے، کل تک جن کی زبانیں اسی نعرہ کودہراتے دہراتے نہ تھکتیں تھیں ، آج جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے یہ جملہ دہرایا تووہ چونک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا رخ پھیردیا اوراس کی حقیقت بیان فرمادی کہ تم جس کو مدد سمجھتے ہو وہ دشمنی ہے، مددتویہ ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے تاکہ وہ اس کے اخروی اورحقیقی نقصانات سے محفوظ رہے۔
صحابہ کی زندگی
اسی پاکیزہ اسلامی بھائی چارہ کا اثرتھا کہ اسلام پھیلتا جاتاتھا اوراسلامی برادری بڑھتی جاتی تھی، اس میں رنگ ونسل کی کوئی تمیز نہ تھی، کوئی حبش کا ہے توکوئی فارس کا، کوئی خالص عربی النسل ہے توکوئی عجم کے خاندان کا فرد ہے، سب ایک دسترخوان کے شریک ہیں ، سب اپنے اپنے ظرف کے اعتبار سے لے رہے ہیں ، کسی کو کسی سے کوئی عار ہے نہ بیر، یہ اسی اسلامی اخوت کا نمونہ تھا کہ عرب کے سردار فاروق
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، باب أعن أخاک ظالما أو مظلوما/۲۴۴۴ـ۶۹۵۲، ترمذی، باب انصر أخاک ظالما أو مظلوما/ ۲۴۲۱، مسند احمد/۱۳۴۲۱