کہیں اتنے مضبوط تونہیں ہورہے ہیں کہ اللہ اوراس کے رسول کی رسی کی گرفت اس کے سامنے ڈھیلی پڑنے لگی ہو،آیت شریفہ میں بڑی عمومیت کے ساتھ یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ایمان والوں کوبہرصورت حق اللہ اورحق الرسول کومقدم ہی رکھناہے، اسی لیے آگے تاکید کے طورپر ’’وَاتَّقُوْا اﷲ َ‘‘ ارشاد فرمایاگیا کہ یہ شان تقویٰ ہے، آگے آیت میں اسی کو تقویٰ کی کسوٹی قراردیاگیاہے، عظمت ہوگی تولحاظ ہوگا، اتباع آسان ہوگا، اورسب کچھ دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہوگا، اسی لیے آگے فرمایا: {إِنَّ اﷲ َ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} ’’بے شک اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اس میں یہ وارننگ دے دی گئی کہ یہ عظمت ومحبت اوراطاعت اپنی حقیقت کے ساتھ ضروری ہے، محض صورت کافی نہیں ۔
شان نبوت میں بے ادبی کفر کا پیش خیمہ
اسی سورت کی دوسری آیت میں اس کی ایک واضح مثال دی گئی ہے، ارشاد ہوتاہے:
{یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْآ أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔} (۱)
’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو، اور جس طرح تم ایک دوسرے کو زور زور سے پکارتے ہو اس طرح نبی کو زور سے مت پکارو ۔‘‘
اس آیت شریفہ میں پہلے تو ’’یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ کو دہرایا گیا ہے، تاکہ اہل ایمان دوبارہ متوجہ ہوجائیں اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ آگے جوکچھ کہا جانے والاہے وہ ایمان ہی کا حصہ ہے، اہل ایمان کواپنے ایمان کے تحفظ کے لیے اس کا
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۲