ہوجاتی اس وقت تک وہ فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اعتماد کرکے کوئی اقدام کربیٹھے اوراس کا نقصان دوسروں کوبھگتنا پڑے، سورۃ الحجرات کی چھٹی آیت میں اسلام کے اجتماعی نظام زندگی کے اسی اہم جزء کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
{یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْآ إِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوْآ أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْماً م بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ۔}(۱)
’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح جانچ لو کہ کہیں تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو، پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہو۔‘‘
تفتیش کی ضرورت
یہ معاشرہ کا ایک فرض ہے کہ عام طورپر لوگ کان کے کچے ہوتے ہیں ، فوری طورپر فیصلہ کرنے میں ان کوکوئی باک نہیں ہوتا، اوراس پران کو ناز ہوتا ہے، اس کو وہ قوت فیصلہ سے تعبیر کرتے ہیں ، حالانکہ حکم شرعی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے خوب جانچ پرکھ لیا جائے کہ کسی پرناحق اس کی زد تونہیں پڑرہی ہے، کوئی مظلوم تونہیں بن رہا ہے، پوری تحقیق کے بعدجب شرح صدر ہوجائے تو فیصلہ کیا جائے، عزم کے ساتھ کیا جائے اوراللہ پر اعتماد ہو۔
عام طور پر اجتماعی کاموں میں ، اداروں میں ، تحریکات میں یہ ناسور پیدا ہوجاتا ہے، ایک بڑا گناہ بدترین گناہ وہ لوگ کرتے ہیں جن کاکام ہی کان بھرنا ہے، اوردوسری بڑی غلطی وہ لوگ کرتے ہیں جوبغیر تحقیق کے ان کی بات تسلیم کرلیتے ہیں ، اس کے نتیجہ میں دلوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں اوربعض مرتبہ بڑے بڑے دینی ودعوتی
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۶