اسلام کی تعلیم
اسلام نے اس جاہلی نخوت اور بے جا فخر وغرور کو توڑا، ارشاد ہوتا ہے:
{یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ}(۱)
’’اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کی ہنسی نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑایا جارہا ہے) ان سے بہتر ہوں (جو مذاق اڑانے والے ہیں )۔‘‘
آیت شریفہ میں ہر طرح کے قومی تقدس کی نفی کی جارہی ہے اور صاف صاف یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ وجہ امتیاز کسی قوم کا فرد ہونا نہیں ہے، بلکہ امتیاز کی اصل بنیاد وہ صفات ہیں جو ایمان والے کے لیے قرب الٰہی کا ذریعہ ہیں ، خیر کا انحصار اسی پر ہے، فضل و کمال کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے بلکہ یہ وہ صفات ہیں جو محنت و جستجو کے بعد توفیق الٰہی سے حاصل ہوتی ہیں ، اور ان میں بہت سی باطنی کیفیات اور اندرونی حالات وہ ہیں جو ظاہر بین اپنی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا، تاہم ہر آدمی اپنی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے، اس کے بعد پھر اس کے لیے کہاں جواز رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں اور اپنی قوم کے بارے میں بڑائی کے احساس میں مبتلا ہو، اور دوسروں کو حقیر سمجھے، اسی لیے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت کردی گئی کہ کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے، اور اس کی نفسیاتی وجہ بھی بیان کردی گئی کہ وہ اپنی بڑائی کے احساس کی جس بنیاد کو لے کر یہ عمل کر رہا ہے، ہوسکتا ہے وہ بنیاد ہی کھوکھلی ہو۔
یہاں لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال ہوا ہے، اس کے مفہوم میں خاندان اور قبیلہ بھی
------------------------------
(۱) سورۂ حجر۷ات/۱۳