طبعی شرافت
گزشتہ آیات میں اہل ایمان کو یہ حکم تھا کہ وہ بھائی بھائی بن کر رہیں ، اور جو چیز بھی اس شفاف رشتہ کو گندہ کرسکتی ہو، اس سے پوری طرح گریز کریں ، اب یہاں یہ بات یاد دلائی جارہی ہے کہ سب سے پہلا مرحلہ اخوت انسانی کے رشتہ کاہے، جس کو ایمانی اخوت کا رشتہ مستحکم کرتا ہے، عقیدہ و ایمان کی وحدت سے اس میں زبردست قوت پیدا ہوجاتی ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ تمام انسان ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ، جو کچھ امتیاز ہے وہ ایمان کا اور ایمانی صفات و کمالات کا ہے، اب اگر کسی کے اندر خاندانی طور پر قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو ذاتی طور پر وہ شرافت نفس رکھتا ہے، وہ خیر کو قبول کرنے میں ایک جاذبیت محسوس کرتا ہے، تو یہ حقیقت میں ماحول کا اثر ہے، جن خاندانوں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام رہتا ہے، ان کے بچوں میں ابتداء ہی سے اس کا رنگ نظر آنے لگتا ہے، اور کبھی شخصی اور ذاتی طور پر بعض لوگوں میں طبعی شرافت ہوتی ہے، اسی کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے: ’’الناس معادن کمعادن الفضۃ والذھب، خیارھم فی الجاھلیۃ خیارھم فی الإسلام إذا فقھوا۔‘‘(۱)(لوگ کانوں کی طرح ہیں ،جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ، جو جاہلیت میں بہتر ہیں وہ اسلام میں بھی بہتر ہیں ، اگر وہ دین کی سمجھ پیدا کرلیں )۔
کبھی کبھی خاص ماحول کی نتیجہ میں خاندانوں میں یہ ملکہ پیدا ہوجاتا ہے، عام طور پر یہ چیز تعلیم وتربیت سے پیدا ہوتی ہے، اور گہری ہوتی جاتی ہے، طبعی طور پر ان لوگوں کے لیے خیر کی صفات کا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے، اور کم محنت سے بعض مرتبہ ان کو بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے، لیکن وجہ امتیاز صفات ہی ہیں ، جو ان صفات
------------------------------
(۱) صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب الارواح جنودمجندۃ/۶۸۷۷، مسند احمد/۱۱۲۴۷