حضرت ابوطالب محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے محبوب چچا، محسن اسلام، لیکن ایمان مقدر میں نہیں تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’چچا کان میں ایک مرتبہ اقرار کرلیجیے، گواہی دے دیجیے۔‘‘ (۱) لیکن جواب یہ ہے کہ قوم کیا کہے گی۔ قرآن مجید میں صاف کہہ دیا گیا: {إِنَّکَ لاَ تَھْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اﷲ َ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ}(آپ جس کو چاہیں اس کو ہدایت دے دینا آپ کا کام نہیں ، ہاں اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے)۔
نعمت ایمان کی ہدایت اسی کے ہاتھ میں ہے، عم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل ’’وحشی‘‘ جن کے سامنے آنے سے آپ کو تکلیف پہونچتی تھی، جاں نثار چچا یاد آجاتے تھے، رحمت الٰہی کا ہاتھ ان کو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کرتا ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں ۔(۲)
توفیق الٰہی
ایمان وہ تحفۂ ربانی ہے وہ جس کو چاہے عطا فرمائے، جس کو یہ نعمت گھر بیٹھے مل گئی وہ ہزار بار شکر کرے، سراپا تشکر و سپاس بن جائے تو بھی شاید حق ادا نہ ہو، اپنے بارے میں خوش گمانی کبھی کبھی انسان کو کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے، نیکی کا چھوٹے سے چھوٹا عمل انسان اللہ کی توفیق سے کرتا ہے۔
یہی دو باتیں سورۂ حجرات کی آخری آیات میں کہی جارہی ہیں ، یہاں بات یہ کہ انسان اپنے کیے ہوئے کسی کام کے سلسلہ میں اس خوش فہمی کا شکار نہ ہو کہ وہ کام
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، باب قصۃ أبی طالب/۳۸۸۴، صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب أول الایمان قول لاالہ الااﷲ/۱۴۱ (۲) صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل حمزۃ/۴۰۷۲، شعب الایمان، باب فی معالجۃ کل ذنب بالتوبہ/۶۸۷۶