ایمانیہ کو جتنا اپنے اندر پیدا کرے گا اتنا ہی وہ حقیقی عزت کا مالک ہوگا، اسی لیے صاف صاف یہ اصول بتادیا گیا:
{إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ أَ تْقـٰکُمْ}
’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بڑھ کر عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
أتقیٰ، تقویٰ سے اسم تفضیل بنایا گیا ہے، یعنی سب سے زیادہ تقویٰ والے، یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تقویٰ کی حقیقت کیا ہے، وہ کیسے اور کب حاصل ہوتا ہے؟ عام طور پر لوگ اس کو متقی سمجھتے ہیں جس کی ظاہری وضع قطع متقیوں کی سی ہو، لیکن یہ تنہا کافی نہیں ، اس میں ظاہر وباطن دونوں کی شفافیت مطلوب ہے، وہ کب حاصل ہوگی، اور اس کے لیے کیا شرائط واصول ہیں ، اس کی وضاحت کے لیے آیات قرآنیہ کا سہارا لینا ضروری ہے۔
تقویٰ درحقیقت دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کے اندر خشیت الٰہی پیدا کرے، اور اس کو خیر پر قائم رکھے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی لیے ایک بار تین مرتبہ سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’التقویٰ ھٰھنا‘‘(۱) (تقویٰ کی جگہ یہ ہے)۔
صدق تقویٰ کا زینہ
قرآن مجید میں صفت ِ صدق کو تقویٰ کی سیڑھی کہا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: {وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ أُولٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ}(۲) (جوسچائی کے ساتھ آیا اور اس کو سچ مانا، وہی لوگ تقویٰ والے ہیں )۔
یہ صدق صرف زبان کی سچائی نہیں ہے، بلکہ اندرباہر کا توافق ہے، حقیقت
------------------------------
(۱) مسند احمد/۸۹۵۶، مسند انس بن مالک/۱۲۷۱۶ (۲) سورۂ زمر/۳۳