’’بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دیجیے کہ تم ایمان نہیں لائے البتہ تم یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے، جبکہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں نہیں اترا۔‘‘
أعراب، أعرابي کی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے، عرب کے بدؤوں کے لیے یہ لفظ بولا جاتا تھا، عام طور پر ان میں ثقافت کی کمی ہوتی تھی، لیکن عربوں کی بہت سی خصوصیات کے وہ حامل ہوا کرتے تھے، خاص طور پر عربی زبان میں ان کو امتیاز بہت بعد تک حاصل رہا، ان کے مزاج میں عام طور پر سختی ہوتی تھی، بنواسد بھی ان ہی اعراب میں شامل تھے، اور یہاں آیت میں خاص طور پر ان ہی کو خطاب کیا جارہا ہے، تاکہ حقیقت ان کی سمجھ میں آجائے، اور ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے کہ زبان سے اسلام کا اقرار کافی ہے، اور اس سے ان کو وہ ساری سہولیات حاصل ہوجائیں گی جو مسلمانوں کو غلبہ اسلام کے وقت کسی درجہ حاصل ہوگئی تھیں ، آگے ارشاد ہوتا ہے:
{وَإِنْ تُطِیْعُوْا اﷲ َ وَرَسُوْلُہٗ لاَ یَلِتْکُمْ مِنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْئاً}(۱)
’’ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کروگے تو وہ تمہارے کاموں میں کچھ بھی کم نہ کرے گا۔‘‘
قرآنی تلقین
یہ حکمت قرآنی ہے کہ ان کو غلطی پر متنبہ کرنے کے بعد صحیح راستہ کی تلقین بھی کی جارہی ہے کہ اپنے وقت کو صرف حصول دنیا میں ضائع نہ کرو، جب تم مسلمان ہورہے ہو تو صحبت نبوت کا فیض اٹھاؤ، اور آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم جس طرح بتائیں اس طرح اپنے ایمان کی تجدید کرو اور اسلام کو مکمل کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اقرار کو ضائع نہیں فرمائے گا اور تم سچے پکے مسلمان بن جاؤگے، پھر اسی کی تاکید کے طور پر ارشاد ہے:
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۷