حقیقی ایمان کا نتیجہ
حضرات صحابہ کی قربانیوں کا راز یہی تھا، غزوۂ احد کے موقع پر ایک صحابی کھجوریں کھاتے کھاتے بے خود ہوکر کہنے لگے کہ یہ تو طویل عمر ہوئی، کھجوریں پھینکیں اور بڑھ کر جام شہادت نوش کیا، انھوں نے جنت کی خوشبو محسوس کرلی، اور حضرات کا یقین مشاہدہ کے درجہ کو پہنچ رہا تھا، حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ اگر جنت اور دوزخ میرے سامنے لے آئے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہ ہو، اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ انھوں نے دنیا کے حالات بدل دیے، وہ جہاں گئے وہاں کی دنیا بدل گئی، ایمان و یقین کی ہوائیں چلنے لگیں ، وہ ذات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیض یافتہ تھے، جو ان کی صحبت میں رہ گیا وہ کندن بن گیا، یہ حقیقت ایمان ہے۔
اللہ کی ذات پر اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وعدوں پر یقین جتنا بڑھتا جاتا ہے، دل کی بستی آباد ہوتی جاتی ہے، دل کی بسی ہوئی بستی کو دنیا کی کوئی طاقت ویران نہیں کرسکتی، آج مسلمانوں کی پستی کا راز یہی ہے کہ دلوں کی بستیاں ویران ہیں ، اس میں جب تک ایمان و یقین کی شمعیں نہیں روشن کی جائیں گی، مسلمانوں کے لیے عزت و بلندی کا حصول سخت دشوار ہے، سربلندی کا وعدہ تو ایمان پر ہے، ’’وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین‘‘۔
موجودہ صورت حال
مسلمان کروڑوں نہیں ارب سے متجاوز ہیں ، لیکن دنیا میں ان کی کوئی وقعت نہیں ، اس کی وجہ ایمان و یقین کی کمی بلکہ عام طور پر اس کا فقدان ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ روپیوں کی خاطر ایمان بیچا جارہا ہے، حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی فرمائی تھی: ’’یصبح الرجل مؤمنا ویمسی کافرا ویمسی