اصلاح معاشرہ
اسلام نے انسان کو اجتماعی نظام سے جوڑا تھا لیکن مغرب نے فرد کی آزادی کا دلفریب نعرہ دے کر انسانوں کو خانوں میں بانٹ دیا، ایک انسان سے دوسرے انسان کا تعلق کاروبار بن کر رہ گیا، بعض سفر کرنے والوں نے بتایا کہ انگلینڈ میں جگہ جگہ بورڈ پر لکھا ہوا ملا کہ "Mind your own business" یعنی آپ اپنا کام کیجیے۔ کوئی کچھ بھی کرے چھپ کر کے یا علیٰ الاعلان کرے، کسی کو بولنے کی گنجائش نہیں ، اس لیے کہ یہ اس کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن اسی پر ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ دیکھنے والا اگر کچھ کہنا چاہے تو اس پر بندش لگانا کیا آزادیِ رائے کے خلاف نہیں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب خودساختہ اصطلاحات ہیں جن کے پردہ میں انسانوں کو جانوروں کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔
ایک بڑے عالم کے پاس یورپ کی ایک تنظیم کے کچھ نمائندے آزادیِ رائے کے سلسلہ میں کچھ سوالات کرنے پہنچے، انھوں نے کہا کہ پہلے میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں کچھ حدود و قیود ہیں یا نہیں ؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم تو اس میں کوئی قدغن لگانا نہیں چاہتے۔ مولانا نے کہا کہ اگر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ دنیا بھر کے دولت مندوں کی دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کردینی چاہیے اور وہ اس کے لیے عملی اقدامات شروع کردے تو کیا اس پر کوئی پابندی لگائی جائے گی؟ اگر نہ لگائی جائے تو حالات بگڑتے جائیں گے اور اگر لگائی جائے تو یہ آزادیِ رائے کے خلا ف ہے۔
اسلام نے بے شک آزادی کی اجازت دی ہے لیکن اس کے حدود متعین