جنہوں نے تقویٰ اختیارکیا۔‘‘ {وَاعْلَمُوْآ أَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ}(۱) ’’جان لو کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
تقویٰ کا راستہ
قرآن مجید میں تقویٰ اختیارکرنے کا نسخہ بھی بتایا گیاہے: {یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ}(۲) ’’اے ایمان والو اللہ کا تقویٰ اختیارکرو، اورسچے لوگوں کی صحبت میں رہو۔‘‘
صحبت صادقین تقویٰ اختیارکرنے اوردل کو اس کے رنگ میں رنگنے کا سب سے آسان اورزوداثر نسخہ ہے، اس کے بغیر تقویٰ کا رنگ پختگی کے ساتھ نہیں چڑھ سکتا، صادقین اللہ کے وہ خاص بندے ہیں جن کے قول وعمل اورظاہروباطن میں کوئی تضاد نہیں ، ان کے اعمال کی شفافیت ان کے دل کی صفائی کا مظہر ہے، ان کا عمل ان کے قول کی تفسیر ہے، اورقول دل کی ترجمانی کرتا ہے، ایمان ان کے دلوں میں اس طرح اترچکا ہوتا ہے کہ ان کے روئیں روئیں سے ایمان کا نور جھلکتا ہے، صادقین کا یہ تسلسل قرن اول سے قائم ہے اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے گا۔
عبادت بھی حصول تقویٰ کا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: {یٰآ أَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔}(۳) ’’اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو جس نے تم کو پیدا کیا اوران لوگوں کو پیدا کیا جوتم سے پہلے ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جائو۔‘‘
ان عبادتوں میں بھی تقویٰ کا مزاج بنانے میں روزہ کوخاص اہمیت حاصل ہے، ارشاد ہوتا ہے: {یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلیٰ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔}(۴) ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے
------------------------------
(۱) سورۂ توبہ/۱۲۳ (۲) سورۂ توبہ/۱۱۹ (۳) سورۂ بقرہ/۲۱ (۴) سورۂ بقرہ/۱۸۳