انداز میں بات صاف کردی جائے تاکہ نہ افراد دھوکے میں پڑیں اورنہ ہی امت کسی دھوکہ کا شکار ہو، لیکن یہ بات خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ اس میں حدود قائم رکھے جائیں ، اکثرایسا ہوتا ہے کہ اس میں انانیت شامل ہوجاتی ہے اوراس پر ضرورت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔
اس گناہ کی شدت
موجودہ دور میں یہ بیماری اچھے اچھے دیندارحلقوں میں پیدا ہوگئی ہے، جب کہ حدیث میں اس کو بدترین گناہوں میں شمار کیاگیاہے، بیہقی کی ایک روایت میں آتا ہے: ’’الغیبۃ أشد من الزنا۔ قالوا یا رسول اللّٰہ! وکیف الغیبۃ أشد من الزنا؟ قال إن الرجل لیزنی فیتوب فیتوب اللّٰہ علیہ، وإن صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتیٰ یغفرہا لہ صاحبہ۔‘‘(۱) (غیبت زنا سے زیادہ سخت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی زنا کرتا ہے پھروہ توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں اورغیبت کرنے والے کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے)۔
ظاہر ہے جس کی غیبت کی گئی ہے معاشرہ میں اس کو گرانے کی کوشش کی گئی ہے اوریہ اس کا ایک بہت بڑا نقصان ہے، اسی لیے غیبت کو بھائی کے مردار گوشت کھانے کے مرادف قراردیاگیاہے، جب تک اس سے معافی نہ مانگ لی جائے، اس وقت تک اس گناہ سے معافی مشکل ہے اس لیے کہ یہ بندوں کے حقوق میں سے ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تومعاف فرمادیں گے لیکن بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں فرمائیں گے جب تک وہ ادا نہ کردئیے جائیں یا معاف نہ کرالیے جائیں ۔
------------------------------
(۱) بیہقی فی شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض/۶۴۶۵