علی أسود فضل إلا بالتقوی۔‘‘(۱) (کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئی امتیاز وفضیلت نہیں ، سوائے تقویٰ کے امتیاز کے)۔
اس میں خاص طور پر دعوت عمل ہے کہ کوئی محض خاندانی امتیاز کی بناء پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہ رہے، اصل وجہ امتیاز خصائص و کمالات اور صفات ہیں ، جن کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے، یہی خصائص و کمالات انسان کو دوسروں پر ممتاز کرتے ہیں ۔
قبیلوں کی تقسیم کا مقصد
خاندانوں اور قبیلوں میں انسانوں کی تقسیم کا مقصد ایک دوسرے سے تعارف ہے، ایک خاندان آپس میں متعارف ہوتا ہے پھر اس کے دوسرے خاندانوں سے رشتے قائم ہوتے ہیں ، ایک دوسرے سے ضروریات وابستہ ہوتی ہیں ، اور خاندانوں میں یہ چیز مزید ربط و ارتباط کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن لوگوں نے بجائے اس کے کہ اس کو تعارف و محبت کا ذریعہ بناتے، تفرقہ ، انتشار اور بھیدبھاؤ کا ذریعہ سمجھ لیا تھا، آیت میں مختلف خاندانوں کے وجود میں آنے کا جو مقصد بیان کیا گیا ہے اس کو پلٹ دیا گیا تھا، اور اس خاندانی تعصب کی بنا پر حسد، غیبت، بدگمانی، بہتان طرازی، چغلی اور خدا جانے کتنے امراض اندر پیدا ہوگئے تھے، مذکورہ آیت سے پہلے والی آیت میں ان ہی باطنی امراض کے دور کرنے کا تذکرہ تھا، اب اس آیت میں خاص طور پر اس جاہلی تعصب پر بندش لگائی جارہی ہے، جس کے نتیجہ میں خاص طور پر مذکورہ بالا امراض پیدا ہورہے تھے۔
------------------------------
(۱) معجم کبیر للطبرانی، باب العین/۱۶، بیہقی، شعب الایمان، فصل ومما یجب حفظ اللسان/۴۹۲۱، شعب الایمان میں ابیض کی جگہ احمر کا لفظ مذکور ہے۔