اندراللہ تعالیٰ نے عمومی طورپرنقل واتباع کا مزاج رکھا ہے، اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کا رُخ رسول کی طرف ہو، اورپھر رسولوں میں بھی وہ رسول جوامام الرسل ہو، خاتم الانبیاء، رحمۃللعالمین ہو، دلوں کا رخ اس کی طرف اگرنہ ہواتوپھر کس کی طرف ہوگا؟ انسانیت کی عظمت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پرختم ہے اور اس عظمت کا نتیجہ یہی ہوناچاہیے کہ جواس پرایمان رکھتا ہووہ اپنے قول وفعل سے اس کے خلاف نہ کرے تاکہ اطاعت کا عام مزاج پیدا ہو،سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:
{یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ}(۱)
’’اے ایمان والو! اللہ اوراس کے رسول کے آگے مت ہو۔‘‘
آیت شریفہ میں رسول کی عظمت اور اولیت و تقدم کے حق کوذہن ودماغ میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے ساتھ عظمت رسول کوجوڑا ہے اوریہ بات صاف کردی ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا حق سب سے بڑھ کر ہے، ہرلحاظ سے ایک ایمان والے کواس کا خیال رہنا چاہیے۔
اگرچہ آیت شریفہ میں خطاب اولین اہل ایمان کو ہے اوراس کے شان نزول میں جوواقعات نقل کیے جاتے ہیں ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے لیکن محققین علماء کا یہ اصول ہے کہ ’’العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب‘‘ (اعتبار الفاظ کے عموم ہی کا کیا جائے گا، کسی خاص سبب سے اس حکم کومربوط نہیں رکھا جائے گا)۔ اس طرح یہ حکم قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہے،ہرفیصلہ کے وقت زندگی کے ہرموڑ پر ہرحال میں ہرایمان والے کوسوچناہے پھرآگے بڑھنا ہے،کہیں کسی ’’غیر‘‘ کی عظمت توجڑنہیں پکڑرہی ہے، نفس کے تقاضے کہیں اتنے غالب تونہیں ہوتے جارہے ہیں کہ ان کو اولیت دی جانے لگی ہو، عرف وعادت اوررسم ورواج کے بندھن
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱