سامنے آتے ہیں کہ بعض مرتبہ آدمی کو ان کا تصور بھی نہیں ہوتا، اور یہ اسی قت ممکن ہے کہ جب اللہ کی اس صفت کا استحضار رہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کے ڈھکے چھپے سے واقف ہے، سینوں کے راز اس کے پاس ہیں ، اندر کی کیفیتوں کو وہ خوب جانتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
{إِنَّ اﷲ َ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ}
’’بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے ڈھکے چھپے سے واقف ہے۔‘‘
{وَاﷲ ُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ}(۱)
’’اور جو کچھ تم کرتے ہو اس پر اس کی پوری نگاہ ہے۔‘‘
آدمی اپنے کیے پر کیسا ہی پردہ ڈالے لیکن وہ اپنے خالق و مالک سے کچھ چھپا نہیں سکتا، جس کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور اپنے کاموں کا حساب دینا ہے، اس کا استحضار انسان کو ہزار خرابیوں سے بچا سکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح میں اس کی خاص اہمیت ہے، ایک روسی مفکر نے یہ بات لکھی ہے کہ ’’سماج کو سنوارنے کا سب سے بڑا ذریعہ آخرت کی جزا و سزا کا یقین ہے‘‘ یقین جتنا بڑھتا جاتا ہے زندگی سنورتی جاتی ہے، پھر انسان پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی کام مالک کی مرضی کے خلاف نہ ہوجائے کہ اس کے نتیجہ میں آخرت کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑے۔
حاصل یہ کہ صفات حمیدہ پیدا کرنے اور زندگی کو صحیح رخ پر ڈالنے کا یہ سب سے قیمتی نسخہ ہے، ضرورت ہے اس کے یقین کو بڑھانے کی اور اسے آزمانے کی۔
k
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۲۰