’’آپ فرمادیجیے کہ کیا تم اللہ کو اپنا دین جتلا رہے ہو، جبکہ اللہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس کو جانتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بخوبی علم رکھتا ہے۔‘‘
آیت میں بات بالکل صاف کردی گئی کہ تم بڑے زور شور سے جس ایمان کا اظہار کررہے ہو بلکہ جتلارہے ہو، اس کی ضرورت نہیں ، اللہ تمہارے دلوں کی حقیقت سے واقف ہے۔
وفد نے آکر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اپنے اس احسان کا ذکر کیا کہ قبائل ہوازن و غطفان اور محارب نے آپ سے جنگیں کیں ، ہم بغیر قتال کے خود آئے اور پھر اپنے اہل و عیال و اموال لے کر آئے، یہ امتیاز صرف ہم ہی کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے احسان جتانے کا تذکرہ کیا ہے:
{یَمُنُّوْنَ عَلَیْکَ أَنْ أَسْلَمُوْا}
’’وہ آپ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے خیالات درست کرنے کا حکم فرمایا:
{قُلْ لاَّ تَمُنُّوْا عَلَيَّ إِسْلاَمَکُمْ}
’’آپ کہہ دیجیے کہ تم اپنے اسلام کا احسان ہم پر نہ رکھو۔‘‘
اور پھر اصل حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی اور ارشاد ہوا:
{بَلِ اﷲ ُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ أَنْ ھَدَاکُمْ لِلإِیْمَانِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔}(۱)
’’بلکہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ دی، اگر تم سچ کہتے ہو۔‘‘
یہ کلام الٰہی کا اعجاز ہے، پہلے کہا جاچکا ہے کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ مسلمان ہو،
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۹