کیے ہیں ، ایک آدمی کو کھانے کی اجازت ہے لیکن دوسروں سے چھین کر نہیں ، ضرورت سے زیادہ نہیں ، انسان اپنی جنسی خواہشات پوری کرسکتا ہے لیکن حدود میں رہ کر، اسلام ہم جنسی کی اجازت نہیں دیتا، اور کوئی بھی معقول مذہب اور فلسفہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا، ایک مرد صرف اسی عورت سے یہ تعلق رکھ سکتا ہے جس سے اس نے نکاح کیا ہو اور اس کی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لی ہوں ، اس کے علاوہ کسی غیر کی طرف غلط نگاہ ڈالنا بھی اسلام میں جرم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج سماج کی خرابیاں اسی مطلق العنان آزادی کی دَین ہیں جس نے انسانوں کو جانور بنادیا ہے اور برائیاں فیشن بنتی جارہی ہیں اور آزادی کے نام پر ان پر دبیز پردے ڈال دئیے جاتے ہیں ۔
سماج افراد سے بنتا ہے، اجتماعیت محبت و سلوک سے پیدا ہوتی ہے، افراد جب تک اپنے اندر محبت وا یثار نہ پیدا کریں اس وقت تک اجتماعیت پنپ نہیں سکتی، اس میں صرف اپنی لذت، اپنی راحت، اپنی دولت کا فلسفہ چھوڑنا لازم ہے، سماج کی فکر، اس کو صحیح رُخ پر لانے کی ضرورت کا احساس اور انسانوں کو انسان بنانے کا جذبہ جب تک پیدا نہیں ہوگا، اور اس کے لیے اپنی لذت و راحت کو تج دینے اور ضرورت پڑجائے تو اپنے فائدے سے دست بردار ہوجانے اور دوسروں کے لیے قربانی دینے کا عزم و حوصلہ جب تک پیدا نہیں ہوگا اور اس کے لیے ہر سماج میں کچھ افراد سر بہ کف کھڑے نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک حالات میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔
حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مال کی محبت، اسراف و فضول خرچی، نام و نمود کی حرص، بے حیائی، لذت اندوزی کے بے جا جذبات، یہ سب وہ برائیاں ہیں جنھوں نے آج پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، اور اس سے بڑ ھ کر خطرہ کی بات یہ ہے کہ برائیوں کو برائی کہنے والے ختم ہوتے جارہے ہیں اور اگر کوئی اچھی طبیعت