کے ساتھ ستاری فرمائیں گے، ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ’’من رأی عورۃ فسترھا کان کمن أحیا موؤدۃ۔‘‘(۱) (اگر کسی کی نگاہ کسی کے پوشیدہ عیب پر پڑ گئی اور اس نے اس کو چھپا لیا، اس نے (گویا) زندہ درگور لڑکی کو زندگی بخشی۔)
حدیث میں بڑی حکیمانہ تعبیر اختیار کی گئی ہے، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگر کسی کی برائی اچھال دی گئی تو اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ مرد یا عورت کسی قابل نہیں رہ جائے گی، گویا کہ اس کی جان ہی نکال لی گئی، دوسرا اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر ان کے اندر مزید برائیوں کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ سوچتے ہیں کہ جب ایک تہمت لگ ہی گئی تو اب کس کا ڈر، عرف اور معاشرہ کا دباؤ بھی بڑی چیز ہے، جب یہ بھی ختم ہوجاتا ہے تو کبھی کبھی آدمی برائیوں کا پیکر بن جاتا ہے، اور اس کے نتیجہ میں معاشرہ میں ایک ناسور وجود میں آجاتا ہے، اب اگر کوئی ایسی برائی دیکھ کر اس پر پردہ ڈال رہا ہے تو گویا وہ اس برائی کرنے والے کو ایک نئی زندگی دے رہا ہے اور اس کو سنبھلنے کا دوبارہ موقع مل رہا ہے، اسی لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ گویا اس نے زندہ درگور کو زندگی دی۔
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ برائیوں کو دیکھ کر ان کی پردہ پوشی کرنا اور لوگوں سے ان کو چھپانا الگ بات ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے، اور جو ہورہا ہے اس کو ہونے دیاجائے، حدیث میں صاف آتا ہے: ’’من رأی منکم منکرا فلغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔‘‘ (۲) (تم میں جو منکر دیکھے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر یہ بس میں نہ ہو تو زبان سے
------------------------------
(۱) ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی الستر عن المسلم/۴۸۳۹، مسند احمد/۱۷۷۹۴
(۲) صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان/۱۸۶، ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی/۴۳۴۲، ترمذی،کتاب الفتن، باب ماجاء فی تغییر المنکر/۲۳۲۷