ایک دوسری حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے نقل کی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’إن الأمیر إذا ابتغی الریبۃ فی الناس أفسدھم۔‘‘(۱) (امیر جب لوگوں میں شبہ کی باتیں تلاش کرے گا تو ان کو بگاڑ کر چھوڑے گا۔)
حدیثوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو برائیاں کھلی ہوئی ہوں ان پر نکیر کی جائے اور کھل کر ان سے روکا جائے لیکن جن برائیوں کا لوگوں کو علم نہیں ان کو کرید کرید کر عام نہ کیا جائے، اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ برائیاں پھیلنے لگتی ہیں ، سماج میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے، اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ ’’کل أمتی معافی إلا المجاھرین۔‘‘(۲) (میری کل امت کو معاف کیاجائے گا سوائے ان لوگوں کے جو گناہوں کا چرچا کرتے ہیں ۔)جب حدیث میں اپنے گناہوں کو چھپانے کا حکم ہے تو دوسروں کے معائب کو اچھالنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، اسی لیے ہر ایک کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کی ٹوہ میں رہے اور نہ اس کے اندرونی حالات کے جاننے کا چکر چلائے۔
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور بلند آواز سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’یا معشر من قد أسلم بلسانہ ولم یغض الإیمان فی قلوبہ لا تؤذوا المسلمین ولا تعیروھم ولا تتبعوا عوراتھم فإن من تتبع عورۃ أخیہ المسلم تتبع اﷲ عورتہ ومن تتبع اﷲ عورتہ یفضحہ ولو فی جوف رحلہ۔‘‘ (۳) (اے وہ لوگو! جو زبان سے تو
------------------------------
(۱) ابوداؤد، باب فی النہی عن التجسس/۴۸۹۱، مسند احمد/۲۴۵۴۴ (۲) صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ستر المؤمن علی نفسہٖ/۶۰۶۹ ، صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق، باب النہی عن ہتک الانسان ستر نفسہٖ/۷۶۷۶ (۳) ترمذی، کتاب البر والصلۃ،باب ماجاء فی تعظیم المومن/۲۱۶۴، ابوداؤد،باب فی الغیبۃ/۴۸۸۲