ان کی کمزوریوں سے واقف ہوکر ان پر قابو پایا جاسکے، اور دنیا کو ان کے شر سے بچایاجاسکے۔
ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ، امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا، عبادت گذار اور شب بیدار ہو یا گناہ گار، وہ ایک دوسرے کی کرید میں نہیں پڑتے، ہر ایک کے لیے خیرخواہی کرنا ان کا مزاج ہوگا، یہ امت کے لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وصیت ہے، وہ کسی کو نیچا دکھانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے، دوسروں کے لیے وہ وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں ، وہ دوسروں کی برائیاں تلاش نہیں کرتے اور اگر کوئی برائی سامنے آجاتی ہے تو اس کے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، کسی کی تحقیر وتذلیل کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا، مشہور حدیث ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم امت کے افراد کو خطاب کرکے فرماتے ہیں : ’’إیا کم والظن فإن الظن أکذب الحدیث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اﷲ إخوانا۔‘‘(۱) (بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ تجسس میں پڑو، نہ ٹوہ میں لگو اور نہ (دنیا میں ) منافست کرو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ بغض کرو اور نہ منھ موڑو اور اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہو کر رہو)۔
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’إنک إن اتبعت عورات الناس أفسدتھم أو کدت أن تفسدھم۔‘‘(۲) (اگر تم لوگوں کے پوشیدہ معائب کے پیچھے پڑو گے تو ان کو بگاڑ ہی دو گے یا بگاڑ کے قریب پہنچادو گے۔)
------------------------------
(۱) صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظن والتجسس والتنافس ونحو/۶۷۰۱، صحیح بخاری، باب ما ینہیٰ عن التحاسد/۶۰۶۴ (۲) ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی النہی عن التجسس/۴۸۹۰