جس کا ہر قول، ہرفعل مرید کے لئے بمنزلہ حکم، اس کی کسی رائے، کسی قول، کسی فعل میں مرید کے لئے گفتگو کی گنجائش نہیں ، نصوص صوفیہ کا ظاہر بھی اسی خیال کی تائید میں ، لیکن یہ عقیدہ اس صورت میں شریعت وعقل دونوں کے معارض ہے، شرعاً بعد انبیاء معصومین کے کوئی بزرگ کیسا ہی کامل ہو ، معصوم وغیر خاطی بہرحال نہیں ، مشاہدہ بھی یہی ہے کہ تجربہ کی ، عمل کی ، علم کی ، لغزشوں اور کو تاہیوں سے یکسر محفوط کوئی بھی بشرنہیں ، زلات اور خطاء اجتہادی سے صحابہ تک خالی نہیں چہ جائیکہ دو سرے بزرگ جو ان سے بہرصورت کمترہیں ایسوں کا اقتدا مطلق کیونکر واجب ہوسکتا ہے ، چندروز ہوئے یہی شبہات ایک مفصل مکتوب کی صورت میں ، حضرت مولانا تھانوی کی خدمت میں پیش کئے گئے جو اپنی تدقیقات باطنی ومعالجہ امراض نفسی کے لحاظ سے اپنے وقت کے امام غزالیؒ ہیں ۔ مولانا مدظلہ‘ کا جواب اس درجہ شافی ، مفصل ، اور مسئلہ کے تمام اطراف وجوانب کو حاوی ہے کہ’’ سچ‘‘۱؎ کی برادری تک اسے نہ پہنچا نا ایک صریح بخل معلوم ہوا ، مولانا نے ازراہ کرم اجازت اشاعت بھی مرحمت فرمادی۔ مکتوب مذکور فخر ومسرت کے ساتھ درج ذیل ہے۔ انشاء اللہ اس سے بہتوں کی الجھن اور طریق کی طرف سے وحشت وبیگانگی رفع ہوجائے گی۔۲؎
------------------------------
۱؎ ماہانہ رسالہ کا نام ۲؎ حکیم الامت نقوش و تاثرات ص۳۰۸