منکشف ہوتے ہیں ان مکشوفات کو حقیقت کہتے ہیں اور انکشاف کو معرفت کہتے ہیں اور اس صاحب انکشاف کو محقق اور عارف کہتے ہیں ۔ پس یہ سب امور متعلق شریعت کے ہی ہیں ۔ اور عوام میں جو یہ شایع ہوگیا ہے کہ شریعت صرف جزو متعلق باحکام ظاہرہ کو کہنے لگے ہیں یہ اصطلاح کسی اہل علم سے منقول نہیں اور عوام سے اس کا منشا بھی صحیح نہیں کہ وہ اعتقادتنافی ہے ظاہر اور باطن میں واللہ اعلم۔۱؎
(ملفوظ ) ایک صاحب نے عرض کیا کہ مقصود اعظم تو شریعت ہی ہے ۔
فرمایا کہ خود ایک ہی چیز ہے یعنی شریعت، اس کے مقابل کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے اعظم کہا جائے جس کا حاصل عمل کا خالص کرناہے بس شیخ اسی کی تدابیر کی تعلیم کرتا ہے ، ان تدابیر کا نام طریقت ہے ، پھر اس برکت سے جو علوم منکشف ہوتے ہیں وہ حقیقت ہیں اور ان ہی کے حقائق میں سے بعض کے انکشاف کا نام معرفت ہے ، باقی اور جو کچھ ہے مراقبہ مکاشفہ ذکر وشغل سب اسی مقصود کے معین اور متمم ہیں اور اصل وہی ایک چیز ہے (یعنی شریعت) اور یہ سب کرنے کے کام ہیں ۔۲؎
یقین کہتے ہیں اعتقاد جازم۴؎ مطابق للواقع کو اگر ادراک کا صرف یہی مرتبہ ہے تو علم الیقین ہے۔ اور اگر اس کے ساتھ غلبہ حال بھی ہو لیکن اس غلبہ میں مدرک۴؎ کو غیر مدرک سے غیبت نہ ہوتو عین الیقین ہے اور اگر ایسا غلبہ ہے کہ غیر مدرک سے غیبت بھی ہے تو حق الیقین ہے ۔ اسی کو کتب فن میں مختلف عنوان سے لکھا ہے۔۳؎
------------------------------
۱؎ تربیت السالک۱۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۲ھ ص ۱۱ ۲؎ الافاضات الیومیہ ص ۵۳۲ قسط ۳؎ ۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۲۲ھ ص ۱۱