دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
کم درجہ کے اور جاہل لوگوں کو دیکھ کر اس کام کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے فرمایا:علماء حق کو میرا یہ پیغام ادب و احترام کے ساتھ پہنچاؤ کہ آپ لوگوں کو میری اس تحریک کے متعلق جو حسن ظن یا کچھ توجہ ہوئی ہے تو وہ ان بے چارے اَن پڑھ میواتیوں کے بیان کرنے یا ان میں کچھ اصلاحی تغیر کے مشاہدہ سے ہوئی ہے ، جو پہلے گوبر تک پوجتے تھے اور اس لئے اگلے مشرکوں سے بھی گھٹیا تھے، (کیونکہ وہ تو خوبصورت مورتیوں اور چمکدار پتھروں ہی کو پوجا کرتے تھے) تو ایسے گرے ہوئے لوگوں کی خبر رسانی یا مشاہدہ سے کام کا صحیح اندازہ کیونکر ہوسکتا ہے، آپ جیسے حضرات اگر براہِ راست مجھ سے مل کر اس کام کو سمجھیں تو اصل قدر وقیمت معلوم ہو۔ (ملفوظات مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص ۱۴۳ ملفوظ ۱۶۳)بعض موقعوں میں نوافل کے مقابلہ میں دعوت وتبلیغ کی اہمیت زیادہ ہے فرمایا:دین کی دعوت کا اہتمام میرے نزدیک اس وقت اتنا ضروری ہے کہ اگر ایک شخص نماز میں مشغول ہواور ایک نیا آدمی آئے ، اور واپس جانے لگے اور پھر اس کے ہاتھ آنے کی توقع نہ ہو، تو میرے نزدیک نماز کو درمیان میں توڑ کے اس سے دینی بات کر لینی چاہئے اور اس سے بات کر کے یا اس کو روک کے اپنی نماز پھر سے پڑھنی چاہئے۔ (ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص ۱۶۹ ملفوظ ۲۰۹) فرمایا:دعوت حق سے بڑا کوئی عمل نہیں ، اگر موقع دعوت کا آجائے تو نفل نماز تو ڑ کر دعوت دیوے اور بعد میں اس کو ادا کر لیوے۔ (ارشادات ومکتوبات مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص ۹۲)