دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
سخت بیماری وکمزوری کی حالت میں بھی سفر حضرت مولانا محمدالیاس صاحبؒ ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ (اس وقت مجھے) اس قدر ضعف ہے کہ خلافِ طبع الجھی ہوئی بات سے اختلاج اور خفقان (دل کی دھڑکن کا احساس) ہوتا ہے، اور آرام کے ساتھ موٹر کی دہلی تک کی سواری سے بخار آتا ہے، اس پر الحمد للہ ایک مہینہ کی مسافت کے لئے میوات کی سخت ترین بادِ سموم اور نہایت جہال کی باتوں کے الجھاؤ کانشانہ بن کر موت کے لئے اپنی جان کو پیش کرنے کی نیت سے اس سفر کو کارزار کا میدان تصور کرتے ہوئے مصمم ارادہ ٔسفر ہے ، گویا یہ سفر جہاد ہے ، مگر اپنے ضعف سے اور اپنی مجرّبہ کم ہمتی سے نہایت خوف ہے ،کسی جگہ یہ نفس شریر کرب و شدائد کے مقابلہ سے فرار کرکے نامردی سے واپس ہوگا۔ دعا کرو کہ جان کے جانے تک تحمل حق تعالیٰ شانہ شدائد و کرب کا نصیب کرے، وماذلک علی اللہ بعزیز، اور یا کام کو پورا کرکے سلامتی کے ساتھ بغنیمت عود( واپسی) نصیب فرمائے، اپنے اس سفر کواہم فریضہ اور صحت کی رعایت کو سنگین ترین معصیت سمجھ کر اپنی زندگی سے مایوس ہوکر سفر کر رہاہوں ۔‘‘ (حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت ص: ۲۲۸) فائدہ:یہ حضرتؒ کا غلبہ حال اور طبعی ذوق تھا کہ ایسی سخت بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی دین کی خدمت اور دعوت ِ دین کیلئے سفر کی زحمت برداشت فرمائی ورنہ صحت کی رعایت کرنا معصیت نہیں بلکہ شرعاً اس کی رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، خودرسول اللہﷺ نے اس کی رعایت فرمائی ہے مسلم شریف میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک صحابی جہاد کے لئے تیارتھے لیکن عین وقت پر بیماری کی وجہ سے جہاد میں جانا مشکل ہوگیا اس وقت رسول اللہﷺ نے دوسرے صحابی جو جہاد کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس سامانِ جہاد نہ تھا،ان کو آپ نے کو حکم دیا کہ ان کے سامانِ سفر جہاد کو لے کر وہ جہادمیں چلے جائیں ۔ (مسلم شریف، کتاب الامارۃ ،باب فضل اعانۃ الغازی فی سبیل اللہ،حدیث نمبر۴۸۷۶، فتح الملہم ،ص۳۵۳، ج۹)