دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
پورے دین کو زندہ کرنا چاہتے تھے، جس کی چند مثالیں ماقبل میں گذرچکی اس لئے اصحابِ تبلیغ کے ذمہ داروں کو ان پہلؤوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس دعوت وتبلیغ سے حضرتؒ جو چاہتے تھے، حالات کے تحت اس میں اس وقت کیا پیش رفت اور کون سے اقدامات کرنے چاہئے، یہ بات محض کسی ایک فرد نہیں بلکہ ارباب بصیرت اور ارباب حل وعقد کے بہت غوروفکر کے بعد ہی طے کی جاسکتی ہے کہ حضرتؒ کی خواہش کے مطابق مزید کن موضوعات کو شامل کرنے یا کتابیں لکھوانے اور ان کتابوں کو تبلیغی نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒنے حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحبؒ کو اپنے پاس رہنے اور روکنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن حضرت مولانامفتی محمد شفیعؒ نے اپنے دینی علمی مشاغل اور مصروفیات کی وجہ سے معذرت فرمادی، غالباً حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحبؒ سے احکام ومسائل اور علمی وفقہی موضوعات پر رسائل لکھوانا چاہتے ہوں گے جیسا کہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریاؒ سے فضائل پر کتابیں لکھوائیں ، الغرض حضرت مولانامحمد الیاس صاحبؒ کو حکیم الامت حضرت تھانوی اور حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحبؒ کی علمی تحقیقات وتصنیفات پر پورا اعتماد تھا، یقینا ان کی تصانیف اس قابل ہیں کہ مطالعہ اور تعلیم کے لئے ان کا انتخاب کیا جائے۔مولانامحمد الیاس صاحبؒ کا حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ سے گہرا ربط اور ان کی تصانیف سے انتہائی حسن ظن اور اعتماد زندگی کے تمام شعبوں میں اور عملی زندگی میں پوری شریعت کو نافذ کرنے کے لئے علم دین اور علم شریعت کی ضرورت بہرحال ہے جس کا دامن بہت وسیع ہے، علم کے باب میں