دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
میں جو باطل طاقتیں رکاوٹ اور روڑہ بنیں ان رُکاوٹوں کو دور کرنا، تاکہ اللہ کا کلمہ ہی بلند ہو کر رہے، اس کے خاطر اگر جان قربان کرنے کی ضرورت پیش آئے تو جان قربان کردینایعنی کافروں سے قتال کرنا، یہ جہاد بالسیف ہے، البتہ اس جہاد کے لئے بہت سی شرطیں ہیں مثلاً امیرالمؤمنین کا ہونا، قوتِ قاہرہ حاصل ہونا، قوت کا مجتمع ہونا،غلبہ حاصل ہونے کا ظن غالب ہوناوغیرہ، شرطوں کے پائے بغیر یہ جہاد جائز نہیں ۔{۴}جہاد کی چوتھی قسم فاسقوں ،فاجروں اور اہل بدعت سے جہاد کرنا علامہ ابن قیمؒ اور حافظ ابن حجرؒ کی تصریح کے مطابق جہاد کی چوتھی قسم فسّاق وفُجّار اور اہلِ بدعت وہویٰ اور اہلِ ظلم سے جہاد کرنا ہے ، اس کی بھی تین قسمیں ہیں ، بالید، باللسان، بالقلب۔ جس کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے : مَنْ رَأیٰ مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرُہُ بِیَدِہِ فَاِن لََّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِن لََّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (رواہ مسلم والترمذی) ترجمہ:جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے اپنے ہاتھ سے اس کی اصلاح کردے ، اگر اتنی قدرت نہ ہوتو زبان سے اس پرنکیر کردے، اگر اتنی بھی قدرت نہ ہوتودل سے اس کو بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔ (۱)پہلی قسم جہاد بالید:کامطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے قدرت وطاقت اور حکومت دی ہے تو اپنے ماتحتوں اور زیرِ اثر لوگوں میں اپنی قدرت وطاقت کے ذریعہ فسق وفجور اور ظلم وجور اور بدعات کو ختم کر دے، اپنی طاقت کے ذریعہ اس کو مٹا دینا، یہی جہاد بالید ہے ۔