دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا ہلک۔ (رواہ احمد عن ابی ذر،مشکوٰۃ شریف،مرقاۃ ص۳۷۲،ج۱۱) اس روایت میں آپ نے اہلِ بیت کو کشتیٔ نوح سے تشبیہ دی ہے، وہ بھی اسی وجہ سے کہ آپ کے خاندان کے واسطہ سے کتاب وسنت تک رسائی ہوئی، ورنہ اصل چیز اتباعِ شریعت ہے، خواہ کسی بھی معتبر ذریعہ اور کسی بھی معتبر واسطہ سے ہو۔ قال القاری فی المرقاۃ وہو لا ینافی اخذ السنۃ من غیرہم لقولہ ﷺ أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیم اہتدیتم،ولقولہ تعالیٰ فأسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، کتاب المناقب باب مناقب اہل النبیﷺ ص۳۰۷،ج۱۱) لیکن اگر اس کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ مروجہ تبلیغی جماعت کا کام ہی کشتیٔ نوح کے مثل ہے، اور نجات اِسی پر موقوف ہے، جو اِس جماعت سے منسلک نہ ہوگا تو وہ ہلاک ہوجائے گا، تو یہ بات اَز روئے شرع ہرگز صحیح نہیں ، جیسا کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے بھی اُصولی انداز میں تحریر فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو ’’تبلیغِ دین کے لئے ایک اُصول‘‘ ملحقہ خطباتِ علی میاں ص۴۴۲،۴۴۷،ج۵)تحریکِ ایمان کی حقّانیت اور مسلّمہ ضرورت فرمایا:ہماری یہ تحریک ایما ن جس کی حقانیت کو اہلِ جہاں تسلیم کر چکے ہیں ، اس کے عمل میں آنے کی صورت بجز اس کے کہ ہر آدمی لاکھ جان کے ساتھ قربان ہونے کو تیا ر ہو، اور کوئی ذہن میں نہیں آتی۔ (مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص: ۲۹۴) یہ تحریک کیا ہے ؟ إنْفِرُوْا خِفَافَاً وَّثِقَالاً پر عمل کرنا اس نفر میں (یعنی نکلنے میں ) کوتاہی عذابِ الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ (مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص:۱۶۸)