دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
فائدہ:اس سے دعوت وتبلیغ کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ہوتاہے ،خود حق تعالیٰ کا فرمان ہے : ’’وَمَنْ أحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إلیٰ اللّٰہِ ‘‘ (پ ۲۴) (اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جولوگوں کو اللہ کی طرف بلائے) دعوت وتبلیغ کی یہ اہمیت اسی وقت ہے جبکہ یہ دعوت وتبلیغ اپنے تمام اصول وآداب اور حدود وقیود اور جملہ شرائط کے ساتھ ہو جس کو علماء نے تفصیل سے بیان کیاہے، اور یہ دعوت وتبلیغ عام ہے فضائل کی دعوت کو بھی اور مسائل کی دعوت کو بھی، معروفات کی تبلیغ کو بھی اور منکرات کی اصلاح کو بھی، مسائل کے پڑھنے پڑھانے کوبھی ، فتویٰ دینے اور فیصلہ کرنے کو بھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مسئلہ کا سیکھنا سکھلانا ہزار رکعت نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ (ابن ماجہ) ایک حدیث میں ہے کہ ایک عالم دین فقیہ جو صرف فرائض پڑھتا ہے، پھر پڑھنے پڑھانے اور مسائل کے سکھلانے میں مشغول ہو جاتا ہے ، دوسرا شخص عبادات و نوافل میں مشغول رہتا ہے،دن بھر روزہ رکھتاہے رات بھر نوافل میں مشغول رہتا ہے ان میں کون شخص افضل ہے؟ آپ نے اس عابد کے مقابلہ میں عالم اور معلّم کو افضل ترین قرار دیا، اور فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت اس عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر۔ (مشکوٰۃ شریف، کتاب العلم ،ص۳۴) اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ یاتو نوافل میں مشغول ہو، یا تعلیم و تعلّم اور دعوت وتبلیغ میں تو نوافل کے مقابلہ میں تبلیغ و تعلیم کو ترجیح ہوگی، حتیٰ کہ اگر کوئی شخص نفل میں مشغول ہے ،اور دعوت کا کوئی موقع ایسا آگیا کہ اگر ابھی موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو بعد میں یہ موقع ہاتھ نہ آئیگا، اور اس دعوت کے نتیجہ میں مخاطب کے ہدایت پر آجانے کا ظن غالب بھی ہو تو ایسی صورت میں نفل نماز توڑ کر پہلے تبلیغ کردینا چاہئے اور نفل کی قضاء بعد میں کرنا چاہئے، یہی مطلب ہے مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے مذکورہ فرمان کا ، یہ مطلب نہیں کہ علی الاطلاق دعوت وتبلیغ کی وجہ سے مخاطب کو اپنی بات سنانے کے لئے نفل نماز توڑ دی جایا کرے، یہ تو آیت