دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ ارشاد فرماتے ہیں : یہاں ایک باریک بات سمجھ لیں وہ یہ کہ ایک نبی ہوتا ہے اور ایک مجدد، اور ایک مصلح ہوتا ہے، نبی کی شان یہ ہوتی ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے بغیر نجات ہی نہیں ہوسکتی اور اس کی ہدایت حاصل کئے بغیر اللہ کی رضا اور کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، اس میں کسی قسم کی مداہنت یا تساہل کی گنجائش نہیں ہے، لیکن مجددین اور مصلحین کا معاملہ یہ نہیں ہے،ہر مجدد اورہر ربانی مصلح کی پیروی سے دین کو اور دین کے طالبوں کو نفع پہنچتا ہے، مثلاً کسی مجدد کے طریقہ سے قربانی کے جذبات بڑھتے ہیں ، لہٰذا اس کے طریقہ کی پیروی سے قربانی کے جذبات بڑھیں گے، اور ایک دوسرے مجدد کے طریقہ سے اخلاق کی اصلاح اور صفائی معاملات کا اہتمام پیدا ہوتا ہے تو اس سے تعلق ووابستگی خاص طور سے اس میں مؤثر ہوگی۔ بہرحال نبی کے طریقہ پر نجات کا انحصار ہوتا ہے اور بالکل اسی طریقہ پر چلنا لازم لیکن کسی مجدد اور مصلح کا معاملہ یہ نہیں ، خاص خاص ترقیاں تو ان کی اتباع اور وابستگی سے ہوتی ہیں ، لیکن نجات اس پر منحصر نہیں ہوتی۔ (تبلیغ دین کے لئے ایک اصول ، ملحقہ خطبات علی میاں ص۴۴۲،۴۴۷،ج۵)ہمت کو بلند رکھو فرمایا :ہمت کو اصل دین کے لئے بلند رکھو، ہمت کو چست کرو، حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی روح مبارک اس قدر سر سبز ہوگی کہ خیال وگمان وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، اور اللہ چاہے ایسی کھلی ترقی دیکھو گے کہ کوئی طاقت اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ (حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی د ینی دعوت ص ۳۰۷)