دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
(جوحضرت مولانا بھی بکثرت کیا کرتے تھے) ’’ اللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ‘‘ ( اے اللہ محمد ﷺ کے دین کی جو لوگ مدد کریں تو ان کی مدد فرما، اور جو اس دین کی مدد نہ کریں ، ان کی تو بھی کوئی مدد نہ فرما) حضر ت مولانا نے اس پر تین بار بآوازِ بلند ایک خاص درد کے ساتھ فرمایا: ’’اللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ،اللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ،اللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ‘‘ پھر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بھائیو ! اس دعاء پر غور کرو اور اس کا وزن سمجھو، یہ وہ دعاء اور بد دعاء ہے ، جس کو قریباً ہر زمانہ میں اللہ کے خاص بندے کرتے چلے آئے ہیں ، یہ بڑی بھاری دعاء ہے ، اس میں دین کی مدد کرنے والوں اور اس راہ میں جدّ وجہد کرنے والوں کے لئے رحمت ونصرت کی دعاء ہے ، لیکن دین کی مدد نہ کرنے والوں کے حق میں بڑی سنگین بددعاء ہے کہ خدا ان کواپنی رحمت ونصرت سے محروم کردے … اب ہر شخص اس دعاء کو اپنے اوپر منطبق کر کے دیکھے کہ وہ اس کی اچھی دعاء کا مصداق ہے ، یا بد دعاء کا نشانہ ، یہ بھی خیال رہے کہ اپنی اپنی نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، اگرچہ اعلیٰ درجہ کی عبادتیں ہیں لیکن یہ دین کی نصرت کے کام نہیں ہیں ، دین کی نصرت تو وہی ہے جس کو قرآن پاک اور اللہ کے رسول ﷺ نے ’’نصرت‘‘ بتلا یا ہے ، اور اس کا اصلی اور مقبول ترین طریقہ بھی وہی ہے جس کو آنحضرت ﷺ نے رواج دیا … اس وقت اس طریقہ اور اس رواج کو تازہ کرنے اور پھر سے اس کو جاری کرنے کی سعی کرنا ہی دین کی سب سے بڑی نصرت ہے ، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ (ملفوظات مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص۳۱ ملفوظ ۲۳)