دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
شرکت نہیں ہوتی، بلکہ اس میں لگنے اور اس کو کرنے ہی سے اس کا حق ادا ہوتا ہے ، لیکن بہت سے لوگوں کو شیطان یہ فریب دیتا ہے کہ وہ کام سے متفق ہوجانے کو کام میں لگ جانا اور شریک ہونا سمجھنے لگتے ہیں ، یہ شیطان کا بڑا دھوکہ ہے) (ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒص۱۵۱ ملفوظ۱۷۸) فائدہ: اپنی حیثیت اور گنجائش کے اعتبار سے ہر شخص کو دعوت وتبلیغ میں حصہ لینا چاہئے البتہ اگر کوئی کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ دوسرے ضروری اہم کام میں لگا ہواہے اس بناء پر عملی طو رپر اس کام میں شریک نہ ہوسکے تب بھی وہ حکماً اس کام میں شریک سمجھا جائے گا، کیونکہ ایک آدمی سار ے کاموں کو عملی طور پر انجام نہیں دے سکتا اس کے لئے شریعت نے تقسیم کار کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی علمی وعملی صلاحیت واستعداداور وقت میں گنجائش کے اعتبار سے سب کو دینی کام انجام دینے چاہئے۔اس امت کا امتیاز دعوتی و تبلیغی کام کے تسلسل سے ہے فرمایا:جس چیز میں ہمارے حضورﷺ دیگر انبیاء سے ممتاز تھے، وہ طریقۂ تبلیغ تھا، پہلے انبیاء کے بعد سلسلۂ نبوت جاری تھا، اس لئے انہیں اس اہتمام کی ضرورت پیش نہ آئی ، جس اہتمام کو ہمارے حضور ﷺ نے ملحوظ رکھا، کیونکہ ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم تھا، اور تبلیغ کا تمام بوجھ ان کی امت کے افراد پر پڑنا تھا۔ (مولانا محمد الیاس صاحبؒ اور ان کی دینی دعوت ص: ۱۶۶) فائدہ:اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری قوموں کو دعوت وتبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکامکلّف نہیں بنایا گیا تھا، قرآن پاک میں بنی اسرائیل کے قصہ میں حق تعالیٰ ارشادفرماتا ہے وَاِذْ قَالَتْ اُمَّۃُٗ مِّنْھُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَانِ اللّٰہُ مُھلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَاباًشَدِیْداً ، قَالُوْا مَعْذِرَۃً اِلیٰ رَبِّکُمْ وَلَعَلَّھُْم یَتَّقُون (سورہ الاعراف ، پ۹)