دعوت و تبلیغ کی اہمیت و ضرورت اور اس کے مقاصد |
ww.alislahonlin |
|
کرنے اور سکھلانے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری ایمانی و عرفانی اور احسانی زندگی سے حق تعالی کی رضاکے ساتھ ساتھ یہ نعمتیں بھی مقصودہیں ،اگر یہ مطلوب ومقصود نہ ہوتیں تو اس کی ترغیب اور دعا کی تلقین کیوں کی جاتی،یہ نعمتیں موعود بھی ہیں اور مقصود بھی اور ان نعمتوں کے حصول کی غرض سے اعمال صالحہ کرنا عین اخلاص و عبدیت ہے ،اور اللہ تعالی کو محبوب بھی ہے ، اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بندے میری ان نعمتوں کوبھی مقصودبنا کرمیری عبادت کریں اور مجھ سے مانگیں ، یہ اخلاص کی اور عبدیت کی علامت ہے، اتنی اہم بات کی طرف حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے مختصر جملہ میں اشارہ فرمایا کہ ہمارے اس کام کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہماری مرغوبات مرنے کے بعد ہم کومل جائیں یعنی جنت مل جائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو محض اپنے فضل سے بغیر حساب وکتاب کے جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ترغیب میں دنیوی برکات کا بھی بیان ہونا چاہئے اسی سلسلہ میں فرمایا اصل تو یہی ہے کہ رضائے الہی اجر اخروی ہی کے لئے دینی کام کیا جائے ،لیکن ترغیب میں حسب موقع دنیوی برکات کا بھی ذکر کرنا چاہئے،بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ابتداء ًدنیوی برکات ہی کی امید پر کام میں لگتے ہیں ، اور پھر اسی کام کی برکت سے اللہ تعالیٰ انہیں حقیقی اخلاص بھی عطا فرمادیتا ہے ۔ فرمایا: دنیوی برکات ہمارے لئے موعود ہیں ان کو مقصود اور مطلوب نہیں بنانا چاہئے لیکن ان کے لئے دعائیں خوب کرنا چاہئیں ، اللہ کی طرف سے آنے والی ہر نعمت کا بندہ بہت زیادہ محتاج ہے ،’’ رَبِّ إنِّیْ لِمَا أنْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر‘‘۔ (ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص ۹۷ملفوظ ۱۱۶)